ایک اطلاع کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے مابین مشترکہ بین الاقوامی سرحد پر خاردار باڑ کھڑی کرنے پر جو تنازع پیدا ہوا تھا، وہ دونوں طرف سے اعلیٰ حکام کی مداخلت سے خوش اسلوبی سے طے کر لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایک ہفتہ پیشتر مسلح طالبان سپاہیوں نے افغان صوبے ننگرہار سے ملحقہ پاک افغان سرحد کے ایک حصے پر کھڑی خاردار باڑ کو زبردستی اکھاڑ دیا تھا اور اکھاڑی گئی خاردار باڑ کو لپیٹ کر ساتھ لے گئے تھے۔ اس کے ساتھ سرحد کے اس طرف چیک پوسٹوں اور سرحد کے آر پار آمدورفت پر نظر رکھنے کیلئے تعمیر کردہ قلعوں میں مقیم پاکستانی حکام کو دوبارہ خاردار باڑ کھڑی کرنے سے منع کر دیا گیا۔
طالبان کی موجودہ حکومت نے شروع سے ہی پاکستان کے ساتھ سرحد پر خاردار باڑ کی مخالفت کی اور کہا تھا کہ اس سے مختلف ضروریات کیلئے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں سرحد پار کرنے والے افغان باشندوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین 2600 کلومیٹر طویل اس بین الاقوامی سرحد پر‘ جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، خاردارتار کی باڑ لگانے کا کام 4 برس قبل شروع کیا گیا تھا اور سرکاری ذرائع کے مطابق اس پر 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس باڑ کا مقصد سرحد پار سے پاکستان میں دہشتگردوں کے در آنے کو روکنا تھا جس میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی‘ مگر ملک کے شمالی علاقوں میں افغانستان سے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی آمد اور ان کی طرف سے کارروائیوں کا سلسلہ مکمل طور پر نہیں رکا، مگر خاردار تار کی باڑ پاکستان اور افغانستان کے مابین طالبان سے پہلے کی افغان حکومتوں اور 15 اگست کے بعد طالبان حکومت کے دور میں جس کشیدگی کا سبب بنتی چلی آ رہی ہے اس کی وجہ واضح ہے۔
اس سرحد کے مختلف مقامات سے ایک اندازے کے مطابق ہر روز تقریباً 50 ہزار سے زیادہ افراد افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان آتے جاتے ہیں۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ تجارت اور کاروبار سے منسلک لوگ، محنت مزدوری کرنے والے‘ طالبعلم اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی غرض سے آنے والے بیمار بھی شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان نے خاردار تار کی باڑ لگانے کے ساتھ بارڈر انٹری کیلئے مختلف مقامات پر گیٹ تعمیر کئے ہیں، جہاں سے ضروری دستاویزات کے ساتھ طے شدہ طریقے کے مطابق لوگوں کو آنے جانے کی سہولت حاصل ہے‘ لیکن اس طریقے سے آمدورفت محدود ہو گئی ہے۔ چمن اور طورخم آمدورفت اور تجارت کے دو بڑے مقامات ہیں، لیکن یہاں بھی سرحد بعض اوقات کئی کئی دن معطل رہتی ہے۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ فرق اگر پڑا ہے تو یہ کہ پہلے افغانستان میں کمزور حکومتیں تھیں جو خاردار باڑ کو یکطرفہ اقدام قرار دینے کے باوجود پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں‘ مگر ٹی ٹی پی کے مسئلے پر پاکستان سے ہٹ کر موقف اختیار کرکے طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے مفادات پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔ وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں شریک پاکستان کے ایک سابقہ سفارتکار رستم شاہ محمود اور وی او اے کے نمائندے کے مطابق خاردار باڑ کی وجہ سے افغان عوام میں ناراضی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ طالبان کی پہلی حکومت کے دور میں بھی دونوں کے مابین اس وقت سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، جب موخرالذکر نے ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان قانونی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہ کرنے کے اعلان کے بعد اسے جہاں سے چاہیں جب چاہیں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے عبور کرنے پر اصرار کیا تھا۔
پرویز مشرف کے دور میں اسی باعث صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک وفد کو افغانستان بھیجنا پڑا، جس نے طالبان سے ملاقات کرکے پاکستان میں داخل ہونے کیلئے افغان باشندوں کو پاسپورٹ اور مقررہ مقامات استعمال کرنے پر راضی کیا۔ 500 ملین ڈالر خرچ کرکے یہ خاردار باڑ کھڑی کرنے کا مقصد دہشتگردوں کی روک تھام کے علاوہ منشیات، ہتھیاروں‘ ممنوعہ اشیا اور انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لانا بھی ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں پاک افغان سرحد پر اس قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘ اور انکا جاری رہنا ملک کے دفاع، سلامتی اور علاقائی خود مختاری کیلئے براہ راست خطرہ ہے۔ کوئی ریاست اپنے خلاف اس قسم کی کارروائیوں کی اجازت نہیں دے سکتی‘ اس لیے پاکستان نے آہنی باڑ لگا کر محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ ''محفوظ سرحدیں‘‘ ہر ریاست کا بنیادی حق ہے، جسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کا ادارہ بھی تسلیم کرتا ہے‘ لیکن پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے اس پر خاردار باڑ کھڑی کرنے کا اقدام چند وجوہات کی بنا پر مشکلات کا شکار ہے۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے پشتون شروع سے ہی اسکے خلاف تھے کیونکہ گزشتہ ایک صدی سے جاری بے روک ٹوک آمدورفت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا احتمال تھا۔
روسی قبضے کے دوران مہاجرین، مجاہدین اور جنگ میں حصہ لینے والوں کی بلا روک ٹوک متواتر آمدورفت نے سرحد کو عملی طور پر معدوم کرکے رکھ دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مذہبی جوش سے سرشار کچھ لوگوں نے پاکستان اور افغانستان کو دو برادر ممالک قرار دیتے ہوئے اس سرحد کو ''غیر ضروری‘‘ قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ روسیوں کیخلاف جنگ اور انکے انخلا کے بعد ''مجاہدین‘‘ گروپوں میں کئی سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان میں کوئی حکومت بھی اتنی موثر نہیں تھی کہ اس سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کو روک سکے۔ طالبان کے پہلے دور حکومت میں سرحد پر آمدورفت کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کی گئی مگر اکتوبر 2001ء میں امریکیوں کے حملے اور طالبان کی سرگرمیوں کے باعث یہ کوشش ادھوری رہ گئی۔
افغان جنگ کے دوسرے دور میں پاکستان، افغانستان اور افغانستان میں لڑنے والی نیٹو افواج کی قیادت کے درمیان سرحد پر سکیورٹی کی ضرورت پر مکمل اتفاق تھا اور اسے عملی شکل دینے کیلئے ایک سہ فریقی میکنزم بھی تھا، جس کی باری باری اسلام آباد اور کابل میں میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ ان میٹنگز میں تینوں فریقوں کی طرف سے اعلیٰ عسکری حکام شرکت کرتے تھے لیکن ہر سال باقاعدہ اجلاس ہونے کے باوجود سرحد پر سکیورٹی نافذ نہ کی جا سکی۔ اس کی وجہ پاکستان اور افغانستان کے مابین اس سکیورٹی کے مفہوم پر اختلافِ رائے تھا۔ یہ اختلاف رائے طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد بھی قائم ہے اور جب تک دونوں حکومتوں کے درمیان اس اختلاف رائے کو دور کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی یہ مسئلہ کشیدگی کا باعث رہے گا۔ گزشتہ ہفتے کا واقعہ اتنا سنگین تھا کہ طالبان وزیر دفاع ملا یعقوب‘ جو افغان تحریک طالبان کے بانی ملا عمر کے صاحبزادے ہیں‘ کو موقع پر پہنچ کر حکام کو قائل کرنا پڑا۔ سمجھوتے کے تحت طے پایا کہ سرحد کے باقی حصوں پر خاردار باڑ کھڑی کرنے کیلئے باہمی مشاورت کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2600 کلومیٹر سے زائد سرحد کے باقی حصوں پر خاردار لگانے کا کام روک دیا گیا ہے۔ پاکستان نے طالبان کے اس مطالبے کو سرحد پر کسی قسم کے تصادم کو روکنے کیلئے قبول کیا کیونکہ تصادم کی صورت میں بعض عناصر کو افغانستان میں پاکستان کیخلاف قوم پرستانہ جذبات ابھارنے کا موقع مل سکتا تھا۔ اس وقت افغانستان جن حالات سے گزر رہا ہے انکے پیش نظر پاکستان اور نہ افغان حکومت ایسا کوئی موقع پیدا ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں لیکن خاردارباڑ کے مسئلے پر طالبان کی طرف سے ردعمل پاکستان کیلئے کچھ سیکھنے کا ضرور موقع ہے اور وہ یہ ہے کہ جدید دور میں ملکوں اور قوموں کے درمیان تعلقات جذبات، خواہشات یا تصورات پر نہیں بلکہ قومی مفاد اور جیوپالیٹکس کے تلخ مگر ٹھوس حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔