1979ء کے آخری لمحوں میں جب سوویت یونین کی فوجوں نے افغانستان پر قبضہ کیا تو دنیا میں بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ روس اب کبھی افغانستان سے نہیں جائے گا۔ ہنگری (1956) اور چیکوسلواکیہ (1968) کی مثالیں موجود تھیں جہاں روسی فوجوں نے کمیونسٹ حکومتوں کو بچانے کیلئے مداخلت کی اور پھر انہیں قائم رکھنے کیلئے وہاں مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔ سوویت یونین کی اس پالیسی کو اس وقت کے سوویت صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بریزنیف کے نام پر ''بریزنیف ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا۔
افغانستان میں بھی روسی فوجیں 1978 کے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی کمیونسٹ حکومت کو بچانے کیلئے داخل ہوئی تھیں۔ اس لیے باہر کی دنیا خصوصاً مغربی ملکوں میں سمجھا جانے لگا کہ افغانستان اب روسی شکنجے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ ایسا سمجھنے والوں میں پاکستان کے جنرل ضیاء الحق بھی شامل تھے۔ 1988ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا اور قیام امن کیلئے جنیوا معاہدات پر موصوف اتنے مایوس ہوئے کہ ان کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ ''کوئلوں کی دلالی میں ہمارے ہاتھ کالے ہو گئے‘‘ یعنی افغانوں نے وہ کام کر دکھایا جس کی کسی کو بھی توقع نہ تھی‘ لیکن توقعات اور اندازوں کے برعکس افغانوں کے طرز عمل کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رک سکا۔ بیرونی حملے اور خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ افغان مجاہدین کو پشاور میں اپنے ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کی اجازت دی اور ہزاروں پختونوں کو بین الاقوامی سرحد عبور کر کے افغان جہاد میں شریک ہونے دیا گیا‘ لیکن 1990ء میں افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں انہی افغان باشندوں نے پاکستان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے، بلکہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کا گھیراؤ کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان ایک بیان میں کہہ ڈالا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک کنفیڈریشن کا رشتہ قائم ہونا چاہیے۔ افغانوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان، افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے۔
افغانستان سے متعلق حیران کن اور سبق آموز واقعات کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔ اکتوبر 2001ء میں جب امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کیا، تو اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ امریکہ کی یہ کارروائی شدید مگر مختصر ہو گی‘ لیکن یہ جنگ بیس برس تک جاری رہی۔ جنرل مشرف کو ابتدا میں یقین تھا کہ امریکی افغانستان سے جلد چلے جائیں گے‘ لیکن بعد میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ افغانستان سے نکلنے میں امریکی عجلت پر پاکستان کو تحفظات تھے‘ مگر افغانستان کے بارے میں غلط اندازے (miscalculations) اور ناقابل حصول مقاصد متعین کرنے میں امریکی سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ روسی فوجوں کے انخلا کے بعد خود امریکہ افغانستان سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ملک کے حالات سنبھالنے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں‘ لیکن دراصل امریکہ نے افغانستان کو ایک خلا میں دھکیل دیا جسے طالبان نے پُر کیا۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ 2001ء میں انہی طالبان کے خلاف امریکہ کو میدان جنگ میں اترنا پڑا تھا؛ تاہم جنگ کی سختی اور نتیجے کے بارے میں امریکہ نے جو تخمینے لگائے، طالبان نے ان کو غلط ثابت کیا۔ 7اکتوبر 2001ء سے شروع ہونے والی امریکی فضائی بمباری اتنی شدید تھی کہ طالبان کو نہ صرف افغانستان کے بڑے بڑے شہروں، بشمول کابل، اور اپنے اہم فوجی ٹھکانوں کو خالی کرنا پڑا، بلکہ ان کی اہم قیادت کو بھی بھاگ کر پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں پناہ لینا پڑی۔ امریکیوں نے سمجھا کہ طالبان بحیثیت ایک سیاسی اور فوجی قوت ختم ہو گئے ہیں اور افغانستان میں ان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کا کوئی امکان نہیں رہا۔ اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ، وسائل اور طاقت عراق پر مرکوز کر دی جہاں وہ صدام حسین کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے۔ خود امریکی ذرائع کے مطابق اگر امریکہ عراق میں استعمال کئے ہوئے وسائل کا دس فیصد بھی افغانستان میں خرچ کرتا تو شاید اسے طالبان کے ہاتھوں ہزیمت نہ اٹھانا پڑتی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کی طرح پاکستان سے بھی افغان عوامل کو سمجھنے میں غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کے لیے اس کالم میں گنجائش نہیں، مگر اتنا ضرور بیان کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 40 برسوں کے دوران افغان مسئلے سے گہرا تعلق ہونے کے باوجود، پاکستان کی کوئی حکومت ان جیو سٹریٹیجک عوامل کو نہیں سمجھ سکی، جو افغان قوم کے مجموعی طرز عمل، خصوصاً پاکستان کے بارے میں‘ کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور لسانی لحاظ سے جڑے ہوئے ہیں‘ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ باہر کی دنیا کے ساتھ اس کے روابط (خصوصاً تجارتی) اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ذریعے قائم ہیں، مگر پاکستان اس کے لیے سب سے بہتر آپشن اس لیے ہے کہ ایک تو پاک افغان سرحد، افغانستان کی دیگر تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں سے زیادہ طویل ہے اور دوسرے اس کے لیے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے پار اور ارد گرد کے ممالک کے ساتھ درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے پاکستان سے گزرنے والا راستہ سب سے کم فاصلہ ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کی وسیع منڈی‘ جس کے ساتھ افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت سینکڑوں سال پرانی ہے، تک براہ راست رسائی بھی صرف پاکستان کے راستے ممکن ہے۔ افغانستان کی ہر حکومت‘ خواہ وہ طالبان کی حکومت ہی کیوں نہ ہو، قومی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے ان سہولیات کی بحالی کو ضروری سمجھتی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک لینڈ لاکڈ (land locked) ملک ہونے کی حیثیت سے افغانستان کا خارجہ تعلقات میں طرز عمل دیگر لینڈ لاکڈ ممالک سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ منگولیا، نیپال اور یوگنڈا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اگر ان تمام حقائق کی روشنی میں پاکستان، افغانستان کے بارے میں پالیسی تشکیل دیتا تو وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر کو آج یہ نہ کہنا پڑتا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے اب بھی افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے، حالانکہ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ طالبان کی حکومت تاریخ میں پہلی حکومت ہے جس کا ملک کے چپے چپے پر مکمل اور موثر کنٹرول ہے۔ پہلی حکومتوں کے دور میں افغانستان سے سرحد پار پاکستان کی فوجی چوکیوں اور دیگر مقامات پر دہشت پسندوں کے حملوں کی وجہ افغان حکومتوں کا غیر موثر کنٹرول بتایا جاتا تھا‘ لیکن طالبان کی حکومت کے بارے میں تو یہ نہیں کہا جا سکتا۔ دراصل امریکہ کی طرح پاکستان نے بھی افغان طالبان کی تحریک کے بارے میں غلط اندازے لگائے حالانکہ افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کے موقع پر کہہ دیا تھا کہ امریکیوں اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف جنگ میں وہ اکیلے نہیں لڑ رہے تھے، ان کے ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک کے جنگجو (جن میں تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہے) ان کے ساتھ تھے؛ چنانچہ وہ کسی کی خاطر ان کے خلاف طاقت کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟