علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ روس‘ اور ماسکو میں صدر ولادی میر پوتن سے ان کی ملاقات اسی عمل کا تسلسل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس دورے کے موقع پر یوکرین کا بحران شدت اختیار کر گیا اور وزیر اعظم ابھی ماسکو ہی میں تھے کہ روس نے یوکرین میں اپنی فوجی کارروائی کا اعلان کر دیا۔ چونکہ یوکرین کے بحران اور روسی فوج کی کارروائی نے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان سخت محاذ آرائی اور کشیدگی کا ماحول پیدا کر دیا تھا، بہت سے حلقوں کی رائے تھی کہ جناب وزیر اعظم کو اس موقع پر روس کے دورے کو ملتوی کر دینا چاہیے تھا کیونکہ اس سے امریکہ کو ایک غلط پیغام جانے کا احتمال تھا‘ لیکن ماسکو میں وزیر اعظم پاکستان کا جس طرح استقبال کیا گیا اور صدر پوتن کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں کے مشترکہ دلچسپی کے امور پر جو طویل بات چیت ہوئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یوکرین کے بحران کے باوجود، وزیر اعظم عمران خان کا دورہ برقرار رکھنے کا فیصلہ درست تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں ''قومی مفاد‘‘ (National Interests) سب سے اہم ہوتے ہیں‘ لیکن تعلقات کو مضبوط اور پائیدار بنانے میں سب سے زیادہ اہمیت باہمی اعتماد کی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کے اس دورے سے پاکستان اور روس کے مابین باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، آگے چل کر یہ تعلقات بارآور ثابت ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ جن شعبوں میں تعاون کیا جا سکتا ہے، دونوں ملک ان کی پہلے ہی نشان دہی کر چکے ہیں۔ دورے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں ان تمام شعبوں میں تعاون کی پیش رفت کا نہ صرف جائزہ پیش کیا گیا ہے، بلکہ اس تعاون کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے مختلف اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں۔
گزشتہ سال اپریل میں روسی وزیر خارجہ ڈیمری یورف نے جب پاکستان کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے تین اہم شعبوں معیشت، تجارت اور دفاع کی نشاندہی کی تھی۔ ماسکو میں وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر پوتن کے مابین ملاقات میں ان میں تین شعبوں پر مشتمل ایک وسیع تر فریم ورک میں پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تعاون کو آگے بڑھانے پر بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد روس کے ڈپٹی وزیر اعظم کے ساتھ پاکستانی وفد کی طویل ملاقات میں بھی ان شعبوں پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ معیشت کے شعبے میں ڈھائی سے تین بلین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کا خاص طور پر جائزہ لیا گیا۔ اس منصوبے پر جولائی 2021ء میں دستخط ہوئے تھے‘ لیکن کچھ وجوہ کی بنا پر اس کی تعمیر شروع نہ کی جا سکی؛ تاہم پاکستان کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر کراچی سے لاہور تک اس 1100 کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن کی بلا تاخیر تعمیر غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے‘ جو اس دورے میں وزیر اعظم کے ہمراہ تھے، مشترکہ اعلامیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ معیشت کے شعبے میں تعاون کو تیز کرنے کے لئے توانائی پر خصوصاً فوکس کیا گیا ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں نے باہمی تجارت اور ایک دوسرے کے ہاں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر بھی بات چیت کی۔ وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے پاکستان روس سے گیس درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ روس سے گیس درآمد کرنے کی تجویز بھی بہت پرانی ہے اور اس سلسلے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے شمالی علاقے، خصوصاً گلگت بلتستان کے تاجکستان سے ملحقہ علاقے اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم بہت کم ہے۔ اس کی وجہ مواصلاتی روابط کا فقدان اور افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ رہی ہے مگر اب افغانستان میں قدرے امن قائم ہونے سے پاکستان اور روس کے مابین افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے راستے تجارت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان اور روس کے حکام اس نئے موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے مختلف تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے دورۂ روس کے دوران ان تجاویز پر عمل درآمد تیز کرنے پر زور دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور روس کے مابین دو طرفہ باہمی تعلقات اور علاقائی و عالمی امور پر یکساں وقف اپنانے کیلئے اس وقت ماحول جتنا موافق ہے، گزشتہ 74 برسوں میں نہیں تھا۔ اس کی وجہ پاکستان اور روس‘ دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں نقطہ نظر میں صحت مند تبدیلی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس صرف مغربی ممالک خصوصاً امریکہ تھا۔ روس بھی پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو بھارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس وجوہات کی بنا پر پاکستان اور روس جغرافیائی طور پر قریب ہونے کے باوجود سیاسی و معاشی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت دور تھے‘ مگر گزشتہ تین دہائیوں یعنی سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد عالمی سیاسی افق پر تیزی سے رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں اور واقعات نے دونوں ملکوں کے مابین فاصلے کم کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں افغانستان میں طبل جنگ بجنے کے بعد ملک کو درپیش معاشی اور سکیورٹی مسائل پر علاقائی تعاون کی ضرورت، بحر ہند سے لے کر بحرالکاہل تک کے علاقے میں سلامتی اور دفاع سے متعلقہ نئے انتظامات کا ظہور اور پاکستان میں اپنے ارد گرد ماحول کو پرامن بنانے کی ضرورت کا احساس شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جس کے نہ صرف اپنے ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے، بلکہ ملحقہ خطوں مثلاً وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھی تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی سطح بہت نیچی ہے حالانکہ تاریخی طور پر یہ دونوں خطے آپس میں تجارتی، ثقافتی اور معاشی روابط کے ذریعے جڑے ہوئے تھے۔ دونوں خطوں کے ممالک میں ان پرانے روابط کو دوبارہ بحال اور فعال کرنے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف امن اور سلامتی کو فروغ ملنے کی امید ہے، بلکہ معاشی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے غربت پر قابو پانے اور خوشحالی لانے میں بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ چند سال قبل شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کو وسیع کرکے اس میں پاکستان اور بھارت کو انہی مقاصد کیلئے بطور مستقل رکن شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کا منصوبہ ''سی پیک‘‘ جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطوں کو تجارت، سیاحت، ثقافت اور معیشت کے شعبوں میں مزید قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس عمل کو کامیاب بنانے میں اس وسیع اور وسائل سے مالا مال خطے میں واقع روس، چین اور بھارت کی تین بڑی معیشتیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد بار کہا ہے، پاکستان اپنی ہمسائے میں واقع ان بڑی معیشتوں اور منڈیوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی شروعات ہو چکی ہیں اور امید ہے کہ بھارت کے ساتھ بھی کشمیر اور دیگر مسائل کے حل کیلئے بات چیت کے آغاز پر پاکستان کے ان تینوں بڑی معیشتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہو جائیں گے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔