"DRA" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات، تاریخ کے آئینے میں

کسی زمانے میں کہا جاتا تھا اور غالباً سچ ہی کہا جاتا تھا کہ '' اسلام آباد میں اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے‘‘۔ اسی دور میں پاکستان کے ایک سیاسی رہنما‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق صدر ایوب خان کے بھائی سردار بہادر خان نے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر حکومتی تبدیل کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم امریکہ سے کتنے مرعوب تھے‘ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے چائے کیلئے بلا کر خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا (حالانکہ چند دن پیشتر بجٹ کی منظوری دے کر آئین ساز اسمبلی ان کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کر چکی تھی) تو وزیر اعظم کی خالی کرسی پر بٹھانے کیلئے مقتدرہ کی نظر اس شخص پر پڑی جو امریکہ میں پاکستان کیلئے سفارت کاری کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔
اسی زمانے میں امریکہ نے چین مخالف سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) قائم کیا اور پاکستان کی حکومت کو اس میں شمولیت کی اتنی جلدی تھی کہ نہ تو فیصلے کی کابینہ سے منظوری لی گئی اور نہ ہی اسمبلی سے اس معاہدے کی توثیق کروائی گئی۔ صدر اسکندر مرزا نے مرکز میں سیاست کو میوزیکل چیئرز کا کھیل بنانے کیلئے ری پبلکن پارٹی تشکیل دی‘ تو خان عبدالقیوم خان نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے تو پاکستان میں ڈیموکریٹک فرنٹ وجود میں آ جاتا ہے (یاد رہے کہ 1954ء میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں حصہ لینے والے متحدہ محاذ کا نام ڈیموکریٹک فرنٹ تھا) اور جب امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو پاکستان میں ری پبلکن پارٹی قائم کر دی جاتی ہے۔ 1955ء میں امریکہ نے ترکی‘ ایران‘ برطانیہ‘ فرانس اور عراق پر مشتمل ''معاہدۂ بغداد‘‘ قائم کیا۔ عالم عرب کے عوام اس معاہدے کے سخت خلاف تھے اسی لیے عراق کے علاوہ کسی عرب ملک کو اس میں شامل ہونے کی جرأت نہ ہوئی‘ لیکن پاکستان نے محض اس لیے اس کی رکنیت اختیار کر لی کہ 1953ء کے پاک امریکہ سکیورٹی پیکٹ کے تحت پاکستان کو امریکی فوجی اور اقتصادی امداد‘ معاہدۂ بغداد‘ جو بعد میں سینٹو (CENTO) کے نام سے مشہور ہوا‘ میں شمولیت سے مشروط تھی۔
23 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے آئین کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا۔ مذہبی جماعتوں نے کہا کہ یہ آئین اسلام کے مطابق ہے‘ جمہوریت پسند طبقوں نے اسے جمہوری قرار دیا اور صوبائی خود مختاری کی علم بردار سیاسی جماعت کے سربراہ حسین شہید سہروردی نے کہا کہ اس آئین کے تحت صوبائی خود مختاری کے مطالبے کو 90 فیصد حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ایک سال کے التوا کے بعد اس آئین کے تحت ملک کے پہلے عام انتخابات ہونا تھے‘ مگر اس سے پہلے ہی 7 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا گیا‘ جو چار سال اپنی اصل شکل اور اس کے بعد اگلے سات سال تک سویلین لبادے میں جاری رہا۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کی واحد وجہ امریکہ کا یہ خوف تھا کہ اگر ملک میں آزادانہ‘ شفاف اور بغیر کسی مداخلت کے انتخابات ہوئے تو پاکستان میں ایسی سیاسی پارٹیاں برسر اقتدار آ جائیں گی جو نہ صرف عسکری معاہدوں میں پاکستان کی شرکت کی مخالف ہیں‘ بلکہ پاکستان کیلئے ایک آزادانہ اور غیر جانبدارنہ خارجہ پالیسی کی حامی بھی ہیں۔ 1963 تا 1970ء کی ایوب مخالف عوامی تحریک کے مطالبات میں دفاعی معاہدوں (سیٹو‘ سینٹو) سے پاکستان کی علیحدگی بھی شامل تھی اور جلسوں اور جلوسوں میں سب سے بلند آواز میں جو نعرہ لگایا جاتا تھا وہ ''امریکی سامراج مردہ باد‘‘ کا نعرہ تھا۔ اس کے باوجود قائدِ تحریک ذوالفقار علی بھٹو کو کہنا پڑا کہ ویتنام میں جنگ ہارنے کے باوجود ایشیا میں امریکہ کا اہم کردار جاری رہے گا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نے سیٹو میں تو پاکستان کی رکنیت ختم کر دی مگر سینٹو کی رکنیت برقرار رکھی‘ بلکہ بڑی کوشش کے بعد پاکستان کیلئے امریکی ہتھیاروں کی فروخت بحال کروائی‘ جو 1971ء کی جنگ کی وجہ سے ایک بار پھر بند کر دی گئی تھی۔
امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کی اس کیفیت کی دو اہم وجوہات تھیں ایک یہ کہ نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کی حالت بہت پتلی تھی اور ان دنوں پوری دنیا میں امریکہ واحد ملک تھا جو کمزور معیشت والے ملکوں کو مالی یا عسکری امداد دے سکتا تھا اسی لیے خود قائداعظم نے 1947ء میں امریکہ سے مارشل پلان کی طرز پر پاکستان کیلئے امدادی پیکیج کی درخواست کی تھی مگر امریکہ نے اس درخواست کو اس لئے اہمیت نہ دی کہ اس وقت سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ کی توجہ یورپ پر مرکوز تھی۔ بعد میں جب چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی کے نتیجے میں سرد جنگ کا فوکس جنوب مشرقی ایشیا پر شفٹ ہوا اور مشرقی وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر سے امریکی اور مغربی مفادات کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان جیسے ملکوں میں امریکہ کی دلچسپی پیدا ہوئی اور اسی دلچسپی یا اثر و رسوخ کو پاکستان جیسے دیگر ممالک مثلاً فلپائن‘ تھائی لینڈ اور ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذریعہ بنایا گیا۔
1980ء کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے اور 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو امریکہ کیلئے ایک دفعہ پھرrelevant بنا دیا تھا‘ مگر اگست 2021ء کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکہ کیلئے پاکستان کی relevance ختم ہو چکی ہے۔ اب افغانستان میں امریکی فوجیں موجود نہیں جن کیلئے امریکہ پاکستان کے راستے سپلائی روٹ کا محتاج ہو‘ نہ ہی امریکہ افغانستان میں جنگ میں الجھا ہوا ہے جس کیلئے اسے پاکستان اڈوں کی ضرورت ہو‘ اس لیے امریکہ اورپاکستان کے موجودہ تعلقات کی نوعیت ماضی سے بالکل مخالف ہے۔ ماضی میں تعلقات transactional تھے یعنی سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکہ کو اپنے ہاں اڈے قائم کرنے کی اجازت دی اور امریکہ اس کے بدلے پاکستان کو معاشی امداد اور ہتھیار فراہم کرتا تھا۔ضیا الحق کے دور میں پاکستان نے امریکہ کو روس کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کو مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرنے کی سہولت دی اور اس کے بدلے پاکستان کو امریکہ نے معاشی اور فوجی امداد کے نام پر اربوں ڈالر کا پیکیج دیا۔ اسی طرح کا ایک اور امدادی پیکیج کیری لوگر بل افغانستان میں موجود امریکی افواج کو سپلائز فراہم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے عوض پاکستان کیلئے امریکی امداد کا ذریعہ تھا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت اب خالصتاً دو طرفہ ہے جو کہ اپنی جگہ بہت اہم ہے کیونکہ اب بھی امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور 2010ء سے دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ آبی وسائل کی ترقی‘ وومن ایمپلائمنٹ اور غربت کے خاتمے کیلئے تعاون جاری ہے‘ مگر اس سے باہر علاقائی یا عالمی سطح پر امریکہ کی کسی حکمت عملی میں پاکستان شامل نہیں ہے۔ پاکستان کی جگہ اب بھارت نے لے لی ہے اس لیے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے آزاد اور خود مختار ہیں‘ لیکن پاکستان کی معیشت اور دفاع کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اب بھی امریکہ کے علاوہ کوئی اور ملک متبادل ثابت نہیں ہو سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں