سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔ قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے سپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح 10 بجے بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ آئینی اور قانونی حوالوں سے یقیناً بے حد اہمیت کا حامل ہے‘جس کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے؛ تاہم اس وقت میرا موضوع گزشتہ ایک ماہ سے ملک میں جاری سیاسی معاملات کے تناظر میں یہ ہے کہ کوئی فرد طاقت کا حصول کیوں چاہتا ہے؟ نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی انسانی رویے کو سمجھنے میں جس قدر اہمیت طاقت (power) کے مطالعے کو حاصل ہے، سماجی محرکات میں سے شاید ہی کسی اور کو اتنی اہمیت حاصل رہی ہو۔ جدید سیاست کے بانی ارسطو (پیدائش 384 ق م) نے یہ کہہ کر کہ 'کامیاب سیاست دان وہ ہے جو معاشرے میں موجود ایک دوسرے سے مختلف اور متصادم مفادات کے حامل سوشل گروپس کے درمیان توازن پیدا کر کے معاشرتی استحکام اور تعاون قائم کر سکے‘ ایک مستحکم ریاست میں طاقت کے کردار کو تسلیم کیا تھا۔ بعد میں اسی اصول کو سائنٹفک انداز میں بیان کر کے سترہویں صدی کے مشہور انگریز سیاسی مفکر تھامس ہابس (Thomas Hobbes) نے جدید ریاست کی نوعیت اور اس کی سب سے اہم خصوصیت ''اقتدار اعلیٰ‘‘ کا نظریہ پیش کیا جسے اب بھی مستند سمجھا جاتا ہے۔ آزاد، خود مختار ریاستوں پر مشتمل موجود ہ عالمی نظام ریاست کی اسی تعریف پر مبنی ہے، جو ہابس نے پیش کی اور جسے 1648 میں معاہدہ ویسٹ فالیا (The Peace of Westphalia) کے تحت یورپ کی تمام قوموں نے تسلیم کیا۔
یورپ کی تقلید میں تمام دنیا میں ریاست کی بنیاد‘ سرحدوں کی مکمل حفاظت، خود مختاری اور آزادی کے احترام اور طاقت کے حصول و استعمال (اقتدار اعلیٰ) کی ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی‘ پر رکھی گئی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے کے لیے سیاسی حقیقت پسندی (Political Realism) کی بنیاد بھی انہی اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ اس کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ عالمی سیاست زیادہ سے زیادہ طاقت جسے قومی مفاد (National Interest) کے نام سے بیان کیا جاتا ہے، کے حصول کی کشمکش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہی اصول ریاست کے فرد کے رویے کی وضاحت کے لیے پیش کیا جاتا ہے، جس کے تحت وہ بعض حالات میں اپنے ہی کئے ہوئے وعدوں سے انحراف، جھوٹ، منافقت، دھوکہ دہی اور لالچ پر اترنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
فرد کے اس رویے کے پیچھے ایک ہی محرک کار فرما ہوتا ہے اور وہ ہے طاقت کا حصول۔ معاشرے میں اپنی طرح دوسرے ہزاروں لاکھوں اور بعض حالتوں میں کروڑوں افراد کے ساتھ رہتے ہوئے ہر فرد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کیلئے طاقت حاصل کرتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنا مطیع بنا سکے‘ لیکن خواہ ریاست ہو یا فرد‘ طاقت کو ایک ہی مقصد کیلئے حاصل کیا جاتا ہے اور وہ ہے تحفظ‘ لیکن دیکھا گیا ہے کہ طاقت بذات خود تحفظ کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے کھو جانے کے ڈر سے اس میں مزید اضافہ کرنا پڑتا ہے‘ مگر جوں جوں طاقت میں اضافہ ہوتا ہے تحفظ کے بجائے عدم تحفظ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یوں تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے انسان زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس جاتا ہے، اور اس کا منطقی نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ قانون اور آئین کو بائی پاس کر کے منزل کی راہ تلاش کرنا پڑتی ہے۔ اصول اور اخلاقی ضابطے پامال کرنا پڑتے ہیں۔ انسان حتمی تحفظ کی تلاش میں پہلے طاقت حاصل کرتا ہے، حاصل کردہ طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے مزید طاقت حاصل کرتا ہے لیکن طاقت کے کھو جانے کا ڈر دور نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ حکمران طاقت کی وجہ سے کرپٹ نہیں ہوتا بلکہ طاقت کے کھو جانے کا ڈر ہے جس کی وجہ سے طاقتور حاکم بھی مالی، اخلاقی اور سیاسی کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے۔
آج سے تقریبا 8 برس قبل تحریک انصاف کے چیئرمین‘ وزیر اعظم عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر، لاہور کے چار حلقوں میں سیلڈ بیلٹ پیپرز کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ آئین اور قانون کے مطابق سیلڈ بیلٹ پیپرز کو گنتی کے بعد دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، لیکن عمران خان نے اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے اگست 2014ء میں اسلام آباد کی طرف ''آزادی مارچ‘‘ کا اعلان کر دیا۔ پہلے ان کا مطالبہ چار انتخابی حلقوں کے ریکارڈ کھولنے تک محدود تھا، پھر انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے سربراہ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا اور اپنے مطالبے کے حق میں اسلام آباد میں غیر معینہ عرصے کیلئے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ اسی دھرنے کے دوران کنٹینر سے تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے عوام کو حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی کال دی، ملک کے بڑے شہروں میں روڈ بلاک کیے گئے اور خود عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ جان دے دیں گے لیکن وزیر اعظم نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ بعد میں جب عدالت کے حکم پر لاہور کے حلقوں کا ریکارڈ دوبارہ چیک کیا گیا تو ضابطے کی معمولی غلطیوں کے علاوہ کسی بڑی منظم دھاندلی کے نشانات نہ ملے۔
اسی اثنا میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کا سانحہ رونما ہوا، اور خان صاحب کو اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنا پڑا‘ لیکن پانامہ لیکس کے بعد کرپشن کے نام پر نواز شریف حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کرنے کا ایک اور موقع ان کے ہاتھ آ گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا اور دھمکی دی کہ وہ دارالحکومت کو باقی تمام ملک سے منقطع کر دیں گے۔ اس کے باوجود وہ نواز شریف کی حکومت کو گرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بعد ازاں پانامہ کے بجائے اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کر دیا گیا۔ کئی مبصرین کی نظر میں 2018ء کے پارلیمانی انتخابات تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع انتخابات تھے۔ خان صاحب نے وزیر اعظم بن کر اقتدار تو حاصل کر لیا مگر ان کو اپنے اقتدار کھو جانے کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا‘ کیونکہ قومی اسمبلی میں انہیں اپوزیشن کے مقابلے میں صرف چند ممبران کی اکثریت حاصل تھی‘ اس لیے انہوں نے اپنے اقتدار (طاقت) کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی مخالفین کو کرپشن اور احتساب کے نام پر جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا‘ لیکن جب ان کا کرپشن اور احتساب کے نام پر بیانیہ ایکسپوز ہو گیا اور اس کے نتیجے میں ان کا اقتدار سے محروم ہونے یا دیگر الفاظ میں طاقت کھونے کا ڈر پیدا ہوا، تو انہوں نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنی حکومت ختم کر دی بلکہ اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جب اپوزیشن نے ان کے اقتدار کو چیلنج کیا تو خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کریں گے، جس کا اصل مطلب یہ تھا کہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے خان صاحب کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور تین اپریل کو انہوں نے یہ سچ کر دکھایا‘ جس پر عدالت کا فیصلہ بھی اب سب کے سامنے ہے۔ انہیں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔