"DRA" (space) message & send to 7575

الیکشن سے چیف الیکشن کمشنر تک

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا سب سے نمایاں پہلو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خان کے بڑے بڑے عوامی جلسے ہیں۔ پہلے انہوں نے پشاور، پھر کراچی اور اس کے بعد لاہور میں جلسوں سے خطاب کیا۔ تینوں جلسوں میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود صرف ایک کال پر عوام کے ایک جمِ غفیر کو اکٹھا کر کے سابق وزیر اعظم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک میں اس وقت بھی ان سے بڑھ کر کوئی اور کراؤڈ پُلر (crowd puller) نہیں ہے۔ جلسوں میں حاضرین کی تعداد دیکھ کر ہمارے بعض کالم نویس دوستوں نے انہیں تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم اور 1968-69 کی ایوب خان مخالف عوامی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں سے تشبیہ دی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر اس وقت ملک میں عام انتخابات ہوں تو اپوزیشن، تحریک انصاف کے ہاتھوں بری طرح پٹ جائے گی۔
سب سے پہلے اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ عمران کے جلسوں میں بھاری تعداد میں شرکت کر کے عوام نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی بعض سیاسی پارٹیاں اور شخصیتیں بڑے بڑے عوامی جلسوں کے انعقاد کی وجہ سے مشہور تھیں۔ تحریک احرار‘ جو نہ صرف مطالبہ پاکستان کے خلاف تھی بلکہ اس کے رہنما قائد اعظم کی ذاتی زندگی پر حملہ کرنے سے بھی نہیں کتراتے تھے‘ کے رہنما عطاء اللہ شاہ بخاری کے جلسے مسلم لیگ کے جلسوں سے کہیں زیادہ بڑے ہوا کرتے تھے، لیکن جب ووٹ ڈالنے کا موقع آیا تو اس کے امیدواروں کی صندوقچیاں خالی تھیں۔ یہ دیکھ کر عطاء اللہ شاہ بخاری کو ایک جلسے میں کہنا پڑا کہ جب میں تقریر کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں ''واہ شاہ جی واہ ‘‘ اور جب میں ووٹ مانگتا ہوں تو کہتے ہیں ''جا شاہ جی جا‘‘۔ 1946ء کے فیصلہ کن انتخابات میں مسلم لیگ نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں سے مسلم ووٹوں کی بھاری تعداد حاصل کی‘ حالانکہ مسلمانوں کے بعض جید علما اور مذہبی جماعتیں، مطالبہ پاکستان کے خلاف تھیں اور اپنے جلسوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کھینچ لانے میں کامیاب رہتی تھیں۔
عمران خان کا حال ہی میں لاہور میں منعقدہ جلسہ بہت بڑا تھا۔ ان کے مقابلے میں اس وقت پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما حاضرین کی اتنی بڑی تعداد کو جلسے میں اکٹھا نہیںکر سکتا‘ لیکن جن لوگوں نے لاہور کے حالیہ جلسے کے سائز کا قریب سے جائزہ لیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اکتوبر 2011ء میں اس مقام پر عمران خان کا جلسہ حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ لیکن 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو پنجاب سے حاصل ہونے والی قومی اور صوبائی نشستیں نون لیگ اور پی پی پی کو حاصل ہونے والی نشستوں سے بہت کم تھیں۔
بڑے بڑے جلسے کسی بھی پارٹی کے سپورٹر کو سیاسی طور پر متحرک رکھنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور پبلسٹی کے لیے بھی جلسے اور جلوس مفید ثابت ہوتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ ووٹ بھی جلسوں اور جلوسوں میں لوگوں کی حاضری کے مطابق ملیں، اس لیے کہ ضروری نہیں کہ کسی پارٹی کے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنے والے تمام لوگ اس پارٹی کے ووٹرز ہی ہوں۔ ووٹنگ کا عمل ایک پیچیدہ ایکسرسائز ہے اور اس میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے جلسے‘ جن کا بلا شبہ پاکستان کی تاریخ میں بڑے جلسوں میں شمار کیا جائے گا، قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں سے مختلف ہیں۔
قائد اعظم کے جلسے اس تحریک کا حصہ تھے جن کی فکری بنیاد، شاہ ولی اللہ، سر سید احمد خان، سید امیر علی اور علامہ اقبال نے رکھی تھی۔ قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت جلسوں، جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا ایک واضح مقصد تھا، یعنی حصول پاکستان، مسلمانوں کے ذہنوں میں اس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ اس وقت کے ہندوستان میں‘ جہاں قوم پرستی کے روپ میں ہندو اکثریت اپنے مذہب کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی نظام قائم کرنا چاہتی تھی‘ کروڑوں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ ایک پُر کشش نعرہ تھا‘ کیونکہ وہ عدم تحفظ کا شکار تھے اور انہیں ایک الگ وطن کی صورت میں تحفظ درکار تھا‘ لیکن عمران خان کے جلسوں میں حاضرین کو ایسا کوئی پُر کشش نعرہ سننے کو نہیں ملتا۔
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے کتنے فیصد لوگ ہیں جو ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کے معنی کو اس کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھتے ہوں گے‘ لیکن پھر بھی لوگ جوق در جوق خصوصاً نوجوان طبقہ، عمران خان کے جلسوں میں اس لیے جاتا ہے کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ کوئی نئی بات سننے کو ملے گی‘ مگر جب کنٹینر والی پرانی تقریر دہرائی جاتی ہے، تو مایوس ہوتے ہیں اور بھرے جلسے سے عمران خان کی تقریر کے دوران ہی جلسہ گاہ سے جانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا قائد اعظم کے جلسوں میں نہیں ہوتا تھا‘ حالانکہ وہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور بھٹو کی تقریر‘ خواہ وہ ٹی وی پر ہوتی تھی یا عوامی جلسے میں‘ سامعین کو سپیل بونڈ کر کے رکھ دیتی تھی۔ اس لیے کہ قائد اعظم کے جلسوں کی طرح بھٹو کے جلسے بھی ایک فکری تحریک کی پیداوار تھے۔ یہ فکری تحریک 1950ء کی دہائی میں تیسری دنیا (Third world) کے ظہور کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ پاکستان میں اس تحریک سے متاثر ہونے والے دانشوروں‘ جن میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے، صفدر میر، طارق علی شامل ہیں‘ اور ٹریڈ یونین، صحافتی انجمنوں، طالب علم تنظیموں، وکیلوں اور یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیموں کے سربراہان، نے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں میں وہ شعور پھیلایا جو آگے چل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد بنا۔
ذرا غور کیجئے بھٹو کے جلسوں اور جلوسوں میں کون سے نعرے لگائے جاتے تھے؟ ''امریکی سامراج مردہ باد‘ مزدور، کسان، طالب علم اتحاد زندہ باد‘‘ ''نوکر شاہی مردہ باد، جاگیر داری مردہ باد‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے بعض نعرے ہو سکتا ہے اپنے معنی کھو چکے ہوں، کیونکہ سیاق و سباق میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں، مگر پرانے تضادات کی جگہ معاشرے میں نئے تضادات جگہ لے چکے ہیں۔ نئے نعروں کے لیے نئے سیاق و سباق موجود ہیں‘ مگر ان کے اظہار کے لیے نئے نعرے بلند نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کی سیاست‘ کسی نظریے پر مبنی نہیں بلکہ ذاتی‘ گروہی یا علاقائی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک تبصرہ کار نے کہا کہ بڑے بڑے جلسوں کے باوجود اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ عمران خان انتخابات میں سویپ کر جائیں گے۔ میں اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں‘ اور لاہور کے جلسہ کے بعد عمران خان کو بھی غالباً اس کا احساس ہو گیا ہے‘ اسی لیے اب انہوں نے الیکشن سے ہٹ کر چیف الیکشن کمشنر کی طرف اپنی توجہ مبذول کر دی ہے اور ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ چیف لیکشن کمشنر نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی قسم کا پریشر لینے کو تیار نہیں‘ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں