اپوزیشن کی نظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اتنی عبوری نوعیت کی ہے کہ ملک میں بعض اہم تقرریوں کا بھی اسے اختیار نہیں‘ مگر آئین اور قانون کی نگاہ میں ریاست پاکستان کے تمام اہم مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے اندرونی حالات ہوں یا امورِ خارجہ‘ موجودہ حکومت کو کسی بھی طرح کے اہم اور دور رس مضمرات کے حامل فیصلے کرنے سے احتراز نہیں کرنا چاہیے‘ مثلاً انتخابی اصلاحات کا معاملہ صرف حکمران مخلوط حکومت کے ایجنڈے پر ہی نہیں بلکہ تقریبا ًہر سیاسی پارٹی کا مطالبہ ہے‘ اسی طرح خارجہ تعلقات کے شعبے‘ جہاں سابقہ حکومت کی نا سمجھی اور بے جا ضد کے باعث پاکستان کے قومی مفادات کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے‘ کی سمت کو درست کرنے کے لیے فوری اور اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں جیسے حالات ہیں‘ ان کے باعث موجودہ حکومت کے سامنے سب سے پہلی اور سب سے اہم معیشت ہونی چاہیے۔بظاہر ایسا ہی ہے اور اس کا ثبوت آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہیں۔ ان مذاکرات کی بدولت بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے نہ صرف پاکستان کیلئے اپنا امدادی پیکیج بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے بلکہ اس کے حجم میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے نیشنل ایڈوائزری کونسل کو بھی نئے سرے سے تشکیل دیا ہے اور اس کے فوری اجلاس کی ہدایات جاری کی ہیں۔ سعودی عرب کا تین روزہ دورہ بھی انہی کوششوں کا حصہ تھا۔ اس سے پاکستان کی تیزی سے خراب ہوتی ہوئی معیشت کو سہارا ملے گا اور ہمارا وہ حال نہیں ہو گا جس سے ہمارے ہی خطے کا ایک ملک سری لنکا گزر رہا ہے۔
کوئی بھی ملک ہو‘ اس کی معیشت کا خارجہ پالیسی سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ سرحدوں کی حفاظت کے بعد خارجہ پالیسی کا سب سے اہم مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کا مقصد ایک مضبوط معیشت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے ‘ خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد‘ اپنی خارجہ پالیسی میں سیاسی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاشی مفادات کے فروغ کو ترجیح دے رکھی ہے۔ پاکستان کی بھی ہر حکومت اور تمام اداروں نے اس تبدیلی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر مبنی خارجہ اور نیشنل سکیورٹی پالیسی کو اپنانے پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر اس وقت ہمارے سامنے اپنے مشرقی اور مغربی دو ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی سے پاک پر امن تعلقات کا قیام بہت ضروری ہے اور موجودہ حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ عدم توجہی کے باعث اور ایک ٹھوس‘ دیرپا اور واضح پالیسی کی عدم موجودگی میں نہ صرف بھارت بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات غیر تسلی بخش ہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں افغانستان کے ساتھ ملنے والی بین الاقوامی سرحد کے پار سے ہماری چوکیوں پر حملے اس تشویشناک صورتِ حال کی گواہی فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاع میں جائز طور پر کارروائی کر کے دہشت گردوں کو ان کی حرکتوں کا مناسب جواب دیا ہے لیکن جوابی حملے اس مسئلے کا حل نہیں‘ بلکہ ایک طرح سے مسئلے کو اور بھی مشکل اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
چند روز قبل افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے ان کارروائیوں پر احتجاج اور قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب کی طرف سے جوابی کارروائی کی دھمکی سے بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ پاک افغان سرحد پر حالات کتنے تشویشناک ہیں۔ حالات ہماری علاقائی سالمیت اور نیشنل سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ شمالی علاقوں کا دورہ کیا اور حالات کا موقع پر جائزہ لیا‘ لیکن حکومت کی طرف سے اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر ملاقات میں غلط فہمیوں‘ کشیدگی اور بڑھتے ہوئے اختلافات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لے کر ان کا اصل سبب معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ہماری علاقائی سالمیت اور نیشنل سکیورٹی کو خطرہ لاحق رہے گا‘ مگر بھارت کے ساتھ تعلقات کے انقطاع سے ہمارے بنیادی معاشی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ خوش آئندہ بات ہے کہ تقریباً ایک سال قبل دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو پُرامن رکھنے کے لیے جو اتفاق ہوا تھا اس پر ابھی تک عمل ہو رہا ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ‘ سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ زمینیں کاشت کی جا رہی ہیں‘ بچے سکول جا رہے ہیں اور ہمارے لوگوں کے لیے ہسپتال کھلے ہیں اور کاروبار چل رہا ہے۔ ورنہ یہ علاقے ویران تھے‘ کیونکہ گولہ باری اور فائرنگ کے تبادلوں کی وجہ سے ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے گھر بار اور زمینیں چھوڑکر سرحد سے کوسوں دور اپنے رشتے داروں کے ہاں یا کھلے آسمان تلے رہنا پڑتا تھا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس اہم پیش رفت کے بعد مزید کامیابیوں کی طرف بھی قدم بڑھائے جاتے۔
اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اگست 2019ء سے زندگی کے ہر شعبے میں تعلقات کا جو جمود جاری ہے‘ اسے توڑ کر دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے لیے آسودگی کی راہ نکالی جاتی۔ میرے خیال میں اس کے لیے سب سے پہلے دو طرفہ تجارت پر عائد پابندیوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عمل بہت ضروری ہے۔پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ مذاکرات پر مشتمل امن کے جس عمل کا 2004ء میں آغاز کیا تھا‘ اس کے تحت کئی شعبوں میں تعلقات بہتر ہوئے مگر دو طرفہ تجارت میں اضافہ سب سے نمایاں تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان بھارت کو موسٹ فیورڈ نیشن (MFN) کا درجہ دینے کا اصولی طور پر فیصلہ کر چکا تھا لیکن اگست 2019ء کے یک طرفہ بھارتی اقدام نے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ برس بھارت سے کپاس اور چینی کی محدود پیمانے پر درآمد کے پاکستانی فیصلے سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے احیا کی امید بندھی تھی مگر سابقہ حکومت کی اپنی کابینہ کے بعض ارکان کی مخالفت کے باعث اس کو منسوخ کرنا پڑا۔
موجودہ حکومت نے ادویات اور میڈیکل آلات کی ایک محدود مقدار کو بھارت سے درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ اسے ملک کی اندرونی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا اور اس پر عمل درآمد کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کے سرکاری ہسپتال دوائیوں اور میڈیکل آلات کی سخت کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کا براہ راست اثر ان غریب مریضوں پر پڑتا ہے جو پرائیویٹ ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ امید ہے کہ محدود پیمانے پر دو طرفہ تجارت کو بحال کرنے کا یہ اقدام پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کو سابقہ سطح پر بحال کر دیا جائے گا کیونکہ معاشی ماہرین اور کاروباری طبقہ پاک بھارت تجارتی تعلقات کو دونوں ملکوں خصوصا پاکستان کے لیے بہت مفید سمجھتا ہے۔