تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں کرسیٔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلام آباد کی طرف اس مارچ میں 20 لاکھ افراد لائیں گے۔20 لاکھ کی تعداد انہوں نے اس لئے بتائی تھی کہ وہ اس سے قبل 27 مارچ کو 10 لاکھ افراد کو اسلام آباد میں جمع ہونے کیلئے کہہ چکے تھے‘مگر خان صاحب نہ تو 27 مارچ کو 10 لاکھ افراد اسلام آباد میں اکٹھے کر سکے اور نہ 25 مئی کو 20 لاکھ کا ٹارگٹ حاصل کر سکے۔ اگرچہ ملک کے چاروں صوبوں میں متعدد مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاج کیا، جلوس بھی نکالے اور دھرنے بھی دیے مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے علاوہ کسی جگہ سے پی ٹی آئی ایک منظم اور بڑی ریلی نہیں نکال سکی۔ جو لوگ بڑے بڑے جلوسوں کی الگ قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد میں بڑی ریلی میں شامل ہونے کے دعوے کرتے تھے، چھپتے چھپاتے‘ پولیس سے بچتے بچاتے اسلام آباد پہنچے۔
کے پی سے عمران خان ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی مگر اس کی وجہ کے پی حکومت کی طرف سے مکمل تعاون اور بھرپور سپورٹ تھی۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان ریلی میں بذاتِ خود موجود تھے اور صوبے کی پولیس انہیں مکمل سکیورٹی فراہم کر رہی تھی‘ تاہم اس ریلی میں بھی شمولیت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہوا جب سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ریلی کے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کا حکم دیا اور پولیس کو پکڑ دھکڑ سے روک دیا۔
جس طرح عمران خان اپنی ریلیوں میں شامل ہونے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں اپنے دعووں کو سچا ثابت نہ کر سکے‘ اسی طرح اپنے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کی مدد سے انہوں نے جن سیاسی مقاصد کے حصول کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، اس میں وہ بری طرح ناکام رہے‘ مثلاً 27 مارچ کو اسلام آباد میں ملین لوگوں کو اکٹھا کرنے کا مقصد اپنی پارٹی کے ان اتحادیوں اور منحرفین کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرنا تھا، جن کے تحت وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے ملک کے طول و عرض (بلوچستان کو چھوڑ کر) میں بڑے بڑے جلسے کیے۔ میرے خیال میں ان جلسوں کا مقصد اداروں پر اثر انداز ہونا تھا اور اس مقصد کیلئے خان صاحب نے کئی لفظی حملے بھی کئے۔ کمالیہ کے جلسے میں نواز شریف پر ججز کو خریدنے کا الزام لگادیا‘ چیف الیکشن کمشنر کو(ن) لیگ کا ملازم کہہ کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا‘ مگر اداروں نے خان صاحب کی اس مہم سے متاثر یا مرعوب ہونے سے انکار کر دیا۔ 25 مئی کو 20 لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا لیکن ٹارگٹ سے بہت کم افراد کو موبلائز کر سکے۔ اس کی وجہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی کی طرف سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے‘ جنہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو احتجاجی مارچ کا روپ دھارنے سے مؤثر طور پر روکے رکھا۔ اسلام آباد میں داخل ہو کر خان صاحب نے اپنے اعلان کے برعکس ایک تقریر کے بعد لانگ مارچ ختم کر دیا اور واپس پشاور چلے گئے۔ ان کے کہنے پر پی ٹی آئی کے جو کارکن ڈی چوک میں جمع ہو ئے تھے وہ اپنے لیڈر کا انتظار کرتے رہے لیکن خان صاحب کو معلوم تھا کہ ڈی چوک پہنچ کر کارکنوں سے خطاب کرنا سپریم کورٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔ عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو جی نائن کی گراؤنڈ میں جلسہ کرنے اور واپس جانے کی ہدایت کی تھی۔ کارکنوں کو اپنے لیڈر کی تقریر سننے کا موقع تو نہ ملا؛ تاہم انہوں نے اپنا غصہ بلیو ایریا کی گرین بیلٹس اور درختوں کو آگ لگا کر، پولیس اور رینجرز پر پتھر برسا کر اور سرکاری گاڑیوں کو نذرِ آتش کر کے نکالا۔اگرچہ حکومت نے ڈی چوک سے ریڈ زون‘ جس میں پارلیمنٹ، قصرِصدارت‘پرائم منسٹر ہاؤس، سیکرٹریٹ اور ڈپلو میٹک انکلیو واقع ہیں، میں مظاہرین کے داخلے کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کئے تھے اور پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج کے دستے بھی تعینات تھے‘ مگر مظاہرین کسی نہ کسی طرح ریڈ زون میں داخل ہو گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق قصرِ صدارت اور امریکی سفارت خانے تک پہنچ گئے تھے‘لیکن سکیورٹی فورسز نے تصادم سے گریز کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے انہیں مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی سخت ہدایات دی گئی تھیں۔
بدھ (25 مئی) سے جمعرات (26 مئی)کی صبح تک جاری رہنے والے اس ڈرامے کا ڈراپ سین بڑا دلچسپ تھا۔ خان صاحب دھمکی دے گئے کہ چھ دن تک حکومت نے اگر اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان نہ کیا تو وہ دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے‘مگر اتحادیوں کی حکومت‘ جس کی مارچ سے پہلے واقعی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور جو اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا تقریباًفیصلہ کر ہی چکی تھی‘ 26 مئی کے بعد زیادہ پُر اعتماد اور پُر عزم نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان کے چھ دن کے الٹی میٹم کو مسترد کر دیا اور کہا کہ کسی کے دبائو اور دھمکی میں نہیں آئیں گے، آئندہ انتخابات کا فیصلہ ایوان کرے گا۔
وہ حکومت جو پہلے متزلزل اور ڈانوں ڈول محسوس ہو رہی تھی‘ اب پوری قوت سے کھڑی معلوم ہو رہی ہے۔ حکومتی زعما کی باڈی لینگویج بھی پُراعتماد ہے۔ پہلے جو سرگرشیوں میں انتخابات کرانے کی باتیں ہو رہیں تھیں‘ اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم اور شہباز شریف کی حکومت کو یہ موقع خود عمران خان صاحب نے فراہم کیا ہے۔ اداروں پر تنقید میں تمام حدود کو پار کر کے، دھمکی آمیز زبان استعمال کر کے اور لاہور کے بجائے پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کر کے خان صاحب نے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ وہ نہ قوم کو متحد رکھ سکتے ہیں اور نہ ملک کے لانگ ٹرم مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔
اب اسمبلیاں توڑنے یا نئے انتخابات کروانے کے بجائے حکومت کی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لانگ مارچ کے اس مختصر مگر ہنگامہ خیز وقفے کے دوران ایک چیز کھل کر سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں مختلف پارٹیوں کی اس مخلوط حکومت کی ریاستی مشینری پر پوری طرح گرفت ہے اور اس کے مؤثر استعمال سے حکومت نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو غیر مؤثر بنا دیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اپنے ڈیپازٹ قرض کی مدت بڑھانے پر راضی ہو گیا ہے، اگر شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے میں پاکستان کیلئے کوئی رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو معاشی جمود کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور پھر اس حکومت کو آئندہ پندرہ ماہ تک برسراقتدار رہنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔