کیا وقت کا دھارا پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کو قومی سیاست میں ایک پیج پر لا رہا ہے؟ گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری دونوں پارٹیوں کے درمیان انتہائی تلخ محاذ آرائی کے پیشِ نظر بظاہر تو اس سوال کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی؛ تاہم جیسا کہ سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ہر چیز ممکن ہے‘ گزرے ہوئے کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن آنے والے کل کے دوست بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر اس وقت دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اور نظریاتی اختلافات کی بظاہر ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل نظر آتی ہے‘ تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کسی زمانے میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان بھی اسی قسم کے اختلافات اور دشمنی تھی‘ لیکن دونوں پارٹیوں نے 2006ء میں تاریخی چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے عہد کیا تھا کہ وہ غیر سیاسی قوتوں کی آلہ کار بن کر ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گی بلکہ سویلین بالا دستی اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے مل جل کر جدوجہد کریں گی۔ اسی معاہدے کی سپرٹ کے تحت 2008ء کے انتخابات کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں نے مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومت قائم کی‘ اگرچہ یہ تعاون زیادہ دیر قائم نہ رہا اور مسلم لیگ (ن) نے مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔
2013ء کے انتخابات میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی سخت حریف تھیں‘ مگر ستمبر 2020ء میں اکٹھے‘ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وسیع تر اتحاد تشکیل دیا۔ اپریل 2022ء میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مرکز میں اقتدار سنبھالنے والی مخلوط حکومت میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)‘ دو اہم اراکین کی حیثیت سے شامل ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں بھی (ن) لیگ کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی حکومت میں پی پی پی ایک اہم پارٹنر کی حیثیت سے شامل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری سخت مخاصمت کے باوجود اسی طرح کل کو کسی مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے مفاہمت ہو سکتی ہے‘ اور دونوں پارٹیاں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آ سکتی ہیں۔ اس کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (ن) لیگ کے ایک سینئر اور جہاں دیدہ لیڈر نے کچھ عرصہ پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وقت آئے گا جب عمران خان کو ہماری ضرورت پڑے گی۔ ان کا مطلب غالباًیہ تھا کہ جن سہاروں سے وہ (ن) لیگی رہنمائوں کو احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہے تھے‘ کسی دن ان کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہو سکتے ہیں ۔
اب ان سہاروں سے عمران خان کے نہ صرف اختلافات پیدا ہو چکے ہیںبلکہ عمران خان اپنی حکومت کے خلاف کامیاب سازش میں بھی انہیں شریک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ البتہ اپوزیشن‘ خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے بارے میں عمران خان کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ ان سب کو اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی سازش کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اور نامور وکیل حامد خان نے عمران خان کے ساتھ بنی گالا میں ملاقات کے بعد عمران خان کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں‘ اور اس سے قبل عمران خان نے ایک غیرملکی ٹیلی وژن چینل کے ساتھ انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا‘ ان کی روشنی میں عمران خان اور نواز شریف دو الگ اور متصادم نہیں بلکہ ایک ہی اور یکساں بیانیے کے مالک نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد حامد خان‘ جو ایک زمانے میں عمران خان کے پُرجوش حامی تھے لیکن پارٹی چیئرمین کے ساتھ کچھ امور پر اختلافات کی وجہ سے ایک عرصے سے انہوں نے پارٹی کی سرگرمیوں میں عدم شرکت کی پالیسی اپنا رکھی تھی‘ نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں جو باتیں کیں‘ ان سے اجمالی تاثر یہ ملتا ہے کہ پارٹی کے چیئرمین تسلیم کرتے ہیں کہ ان سے چند غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے انہیں سیاسی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان غلطیوں میں سہاروں پر ضرورت سے زیادہ انحصار بھی شامل تھا۔ حامد خان نے انکشاف کیا: میں نے عمران خان کو ان حلقوں سے دور رہنے اور ان پر انحصار نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حامد خان کے مطابق‘ اس وقت عمران خان نے ان کی بات کا برا منایا تھا‘ مگر اب وہ کہتے ہیں کہ ''آپ کی بات درست تھی‘ میں جس تجربے سے گزرا ہوں اس کی روشنی میں مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ غیر سیاسی قوتوں پر نہ صرف یہ کہ انحصار نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ (میں قائل ہو گیا ہوں) کہ ان کو سیاست سے دور رہنا چاہیے‘‘۔
اس ماہ کے آغاز میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں سابق وزیراعظم نے اپنی حکومت اور مقتدرہ کے باہمی تعلقات کے بارے میں اور بھی کھل کر باتیں کیں ''وزیراعظم کی حیثیت میں مجھے تمام اختیارات استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا‘ کیونکہ اصل اختیارات کے مالک کچھ اور لوگ تھے‘ ہمارے (حکومت کے) ہاتھ بندھے ہوئے تھے‘ ہم ہر طرف سے بلیک میلنگ کا شکار تھے۔ طاقت ہمارے ہاتھ میں نہیں تھی‘ اس لیے ہمیں مجبوراً ان پر تکیہ کرنا پڑا۔ ہماری حکومت کے حصے میں جو آیا ‘ فقط ذمہ داریاں تھیں‘ لیکن ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے ضروری اختیارات اور قوت نہیں تھی‘‘۔
اب ان الفاظ کا موازنہ نواز شریف کے بیانیے سے کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں سے آن لائن خطاب اور دیگر مواقع پر سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش پر نواز شریف نے جو کچھ کہا‘ اسے مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ''گزشتہ 74 برسوں میں کسی وزیراعظم کو اس کے عہدے کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ آئین کے تحت پالیسی سازی کے شعبے میں وزیراعظم کو جو اختیارات حاصل تھے‘ ان کے استعمال کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔ پاکستان میں سٹیٹ سے بالاتر بھی ایک سٹیٹ ہے جواختیارات اور طاقت کی مالک ہے۔ ووٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرکے عوامی حاکمیت کی خلاف وروزی کی جاتی ہے۔ ایک ہی دفعہ یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ یہاں حکومت کا حق عوام کو ہے یا چند طالع آزمائوں کو۔ ملک میں اس وقت تک سیاسی استحکام نہیں آ سکتا جب تک ووٹ کو عزت نہیں دی جاتی‘‘۔
اب دیکھ لیں کہ نواز شریف اور عمران خان کے تازہ ترین بیانیے میں کیا فرق ہے؟ کیا ان دونوں رہنماؤں کو ایک پیج پر نہیں ہونا چاہیے اور خواجہ سعد رفیق کو اپنے وعدے کے مطابق‘ عمران خان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے؟ لیکن ٹھہریے! اتنی جلدی اتنے بڑے نتیجے پر پہنچنا مناسب نہ ہو گا کیونکہ عمران خان کے بیانات میں تضاد ہے اور وہ مختلف مواقع پر مختلف باتیں کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ تسلیم کرتے ہیں کہ غیر سیاسی قوتوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور دوسری طرف انہیں ان کے نیوٹرل ہونے پر اعتراض ہے۔ ایک طرف وہ مقتدرہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے قریبی ساتھی مصالحت کی کوششوں میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ اس لیے خان صاحب کے تازہ ترین بیانات کے باوجود ان کے سیاسی حریف اسے ان کے دل کی آواز تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے نزدیک تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے دیگر اداروں کے ہمراہ مقتدرہ پر دبائو ڈال کر اسے ایک دفعہ پھر اپنی پشت پناہی پر مجبور کرنے کے لیے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ نواز شریف کے مماثل بیانیہ اختیار کرنا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتا ہے۔