"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان بھارت‘ ایک جیسا سیاسی کلچر

پاکستان اور بھارت کی باہمی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان میں کچھ حلقوں کی طرف سے بھارت کو ازلی دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت کے انتہا پسند عناصر کی جانب سے پاکستان کو بھارت کے لیے سب سے بڑا نیشنل سکیورٹی رسک قرار دے کر ہر قسم کے روابط حتیٰ کہ سپورٹس‘ آرٹس اور میوزک میں اشتراک کی مخالفت کی جاتی ہے‘ لیکن تاریخ کا جبر کہیے یا قدرت کی ستم ظریفی‘ دونوں کیلئے ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک لمبی مشترکہ سرحد اور اہم دو طرفہ تنازعات ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کے سماجی رویے اور سیاسی کلچر ایک دوسرے سے حیران کن حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ بھارتی سماج کے برعکس پاکستانی معاشرہ ذات پات میں بٹا ہوا نہیں ہے‘ لیکن پاکستان میں اس کا متبادل برادری سسٹم پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ ہر سطح کے الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے شعبے مثلاً زبان‘ ادب‘ آرٹس‘ میوزک‘ فیشن‘ نظامِ عدل‘ سیاسی نظام اور گورننس ایسے ہیںجو پاکستان اور بھارت کیلئے بدستور باہمی دلچسپی کے مراکز ہیں‘ لیکن اس کالم میں ان شعبوں میں پاک بھارت دلچسپی کی بدستور موجودگی کی بنیاد اور باہمی تعاون سے دونوں ملکوں کی سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے رویے اور ترجیحات ایک دوسرے سے کتنی مماثلت رکھتے ہیں‘ اس کی ایک مثال پیشِ نظر ہے۔
تقریباً ڈھائی ماہ قبل جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ پاکستان میں ہوئی اور ابھی تک ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جاری ہے‘ اس کا ہوبہو عکس بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس ریاست میں برسرِ اقتدار مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی شیو سینا کے نصف اراکینِ اسمبلی نے پارٹی کے قائد اور وزیراعلیٰ اودھے ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ ان باغی اراکینِ اسمبلی کی قیادت شیو سینا کے ایک رہنما اور رکن اسمبلی ایکناتھ شندے کر رہے ہیں۔ پارٹی قیادت اور ریاستی مشینری کے دبائو سے بچنے کیلئے مسٹر شندے منحرف اراکینِ اسمبلی کو پہلے گجرات لے گئے‘ مگر وہاں غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے ایک عالی شان ہوٹل میں چلے گئے اور چیف منسٹر اودھے ٹھاکرے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے جنہوں نے اب عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ مسٹر شندے اور ان کا ساتھ دینے والے اراکینِ اسمبلی کو ریاست کی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی میں بی جے پی کی حمایت حاصل تھی۔ بی جے پی مہاراشٹر میں شیو سینا‘ کانگریس اور نیشنل کانگریس پارٹی کی مخلوط حکومت کو ہٹانے کیلئے کیوں کوشاں تھی؟ یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ 2019ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 288 میں سے 106 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے ایوان میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی تھی‘ لیکن اودھے ٹھاکر ے کی پارٹی‘ جو صرف 57 نشستیں حاصل کر سکی تھی‘ باقی دو جماعتوں نیشنل کانگریس پارٹی (NCP) اور آل انڈیا نیشنل کانگریس (INC) سے مل کر ایوان میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے میں کامیاب ہو گئی‘ حالانکہ 2019ء میں شیو سینا نے نہ صرف پارلیمانی بلکہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی بی جے پی کے ساتھ مل کر حصہ لیا تھا جبکہ 2014ء کے ریاستی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت میں شیو سینا بی جے پی کی پارٹنر تھی۔ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کا سیاسی اور انتخابی ساتھ بہت پرانا ہے‘ لیکن 2019ء کے انتخابات کے بعد شیو سینا نے بی جے پی‘ جو کہ ایوان میں 106 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی‘ کو ملا کر حکومت بنانے کے بجائے نیشنل کانگریس پارٹی (53) اور آل انڈیا نیشنل کانگرس (44)کو ملا کر مخلوط حکومت بنا لی‘ جس میں شیو سینا کے سربراہ اودھے ٹھاکرے وزیراعلیٰ بن گئے۔
مہاراشٹر میں سیاسی بحران کے پس پردہ شیو سینا کی ہر قیمت پر اپنا وزیراعلیٰ لانے کی خواہش اور بی جے پی کی اس کو ناکام بنانے کی کوشش ہے۔ ماضی میں ایسا کوئی مسئلہ وجود نہیں رکھتا تھا کیونکہ اسمبلی میں شیو سینا کی نشستیں بی جے پی سے زیادہ ہوتی تھیں۔ 2019ء کے انتخابات میں شیو سینا کی نشستیں بی جے پی کے مقابلے میں آدھی تھیں۔ اس کے باوجود مسٹر ٹھاکرے چیف منسٹر شپ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ اودھے اور ان کے والد‘ بال ٹھاکرے‘ دونوں کی کوشش بلکہ ضد رہی ہے کہ اسمبلی میں ان کی سیٹوں کی تعداد سے قطع نظر چیف منسٹر شپ ان کے خاندان کے پاس رہنی چاہیے بلکہ شیو سینا کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے اس نے بی جے پی کے نظریہ ''ہندوتوا‘‘ کو گلے لگا کر اس کے ساتھ انتخابی اتحاد کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کیا ہے‘ اس کا ووٹ بینک پھسل کر بی جے پی کی جھولی میں گرنا شروع ہو گیا ہے۔ شیو سینا ایک انتہا پسند ہندو تنظیم ہی نہیں بلکہ اس کی سیاست کا مرکز ''مرہٹہ کمیونٹی‘‘ ہونے کی وجہ سے اس پر ایک لسانی تحریک ہونے کی بھی چھاپ ہے۔ جب تک شیو سینا کا فوکس ''مرہٹہ‘‘ کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ رہا‘ اس کا ووٹ بینک محفوظ رہا‘ مگر جب اس نے بی جے پی کے ''ہندوتوا‘‘ کے فلسفے کو اپنا کر اس کے ساتھ انتخابی اتحاد پر مبنی سیاست کا آغاز کیا‘اس کا ووٹ بینک سکڑنا شروع ہو گیا۔ بی جے پی اور نریندر مودی جیسی طاقت ور شخصیت کی قیادت میں پورے ہندوستان میں ہندوتوا کے پرچارکوں نے شیو سینا جیسی ایک چھوٹی علاقائی پارٹی کی علیحدہ پہچان کو کمزور کر دیا ہے۔
منحرف رہنما ایکناتھ شندے مہاراشٹر کی موجودہ مخلوط حکومت کے ایک طاقتور اور بااثر رکن ہیں اور ان کا ساتھ دینے والے اراکین کی تعداد 30 اور 40 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ (سابق) چیف منسٹر اودھے ٹھاکرے آخر تک یہی دعویٰ کرتے کہ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی کی بغاوت سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اینٹی ڈی فیکشن لاء موجود ہے اور چیف منسٹر نے منحرف اراکین کی کوشش کو ناکام بنانے کیلئے اس کے استعمال کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ مسٹر شندے کا دعویٰ تھا کہ حکومت منحرف اراکین پر اپنا فیصلہ بدلنے کیلئے دبائو ڈال رہی ہے؛ چنانچہ انہوں نے اپنے ساتھ اراکینِ اسمبلی کو ہزاروں کلومیٹر دور گوہاٹی کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا تاکہ مہاراشٹر کی حکومت کی ان تک پہنچ ممکن نہ ہو سکے۔ جب بھارتی سپریم کورٹ نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا تو ٹھاکرے نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
اس پر پاکستان میں آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل مری اور چھانگا مانگا کے ریسٹ ہائوس کی داستان یاد آ جاتی ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف پنجاب کے وزیراعلیٰ اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں تحریک عدم اعتماد کا آغاز کیا گیا تھا‘ لیکن بھارت میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی اور اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف ووٹ دینے کے واقعات بھارت میں گزشتہ چار دہائیوں سے ہوتے آ رہے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ میں 2019ء میں راجستھان اسمبلی میں آل انڈیا کانگرس سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ بھارت میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ کی اس سیاست کا مرکز اسمبلیوں کے بجائے عالیشان ہوٹل یا دور دراز کے تفریحی مقامات بن چکے ہیں‘ جہاں باغی اراکین کو عیش و عشرت کے مواقع فراہم کر کے انہیں اپنے مقاصدکیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں