"DRA" (space) message & send to 7575

افغان پالیسی کی چار دہائیاں: کیا کھویا کیا پایا ..... (2)

افغانستان میں روس (سوویت یونین) کی فوجوں کے داخلے کے وقت امریکہ میں جمی کارٹر برسرِ اقتدار تھے۔ انہوں نے روس کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ اگر روس نے افغانستان کی سرحدوں سے نکل کر خلیج فارس یا بحرِ ہند کی طرف پیش قدمی کی تو امریکہ پوری قوت سے اس کی مزاحمت کرے گا۔ صدر کارٹر کے اس بیان کو ''کارٹر ڈاکٹرائن‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد خلیج فارس اور بحرِ ہند میں ممکنہ سوویت پیش قدمی کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع تھا۔ پاکستان ضیا الحق کی حکومت کی وجہ سے صدر کارٹر کی توجہ کا مرکز نہیں تھا؛ تاہم افغانستان کے ساتھ بہت لمبی سرحد‘ جس کا ایک حصہ بحر ہند کے ساتھ ساحل رکھنے والے صوبہ بلوچستان سے بھی ملتا تھا‘ کی وجہ سے صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط بنانے کیلئے 200 ملین ڈالر کی پیشکش کی جسے ضیا الحق نے Peanuts کہہ کر مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ضیا الحق امریکہ اور مغربی دنیا کی سٹریٹیجک کمیونٹی کو کسی طرح یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ افغانستان میں روسی افواج اور بحرِ ہند کے درمیان صرف پاکستان کھڑا ہے۔ جمی کارٹر کے جانشین ریپبلکن پارٹی کے نمائندے‘ امریکہ کے نئے صدر رونلڈ ریگن نے اس سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہوئے پاکستان کو افغانستان میں روسی فوج کے خلاف مزاحمت میں ''فرنٹ لائن‘‘ سٹیٹ قرار دیا۔ اس کے ساتھ سعودی عرب سے مل کر پاکستان اور اس کے ذریعے روسی فوجوں کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے ایک طویل المیعاد پروگرام کا اعلان کر دیا گیا‘ مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد سٹریٹیجک مقاصد کیلئے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ روس کو افغانستان کی جنگ میں الجھا کر ویتنام میں اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا اور ضیا الحق امریکی امداد کے ذریعے اپنی کرسی مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکی اقتصادی پابندیوں سے استثنا حاصل کرکے پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے تھے‘ مگر سب سے اہم اور ایک بالکل نئے اور غیر متوقع عنصر کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے امریکہ کو روس کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور اس میں پاکستان کے کردار کا ایک قریبی اور تنقیدی جائزہ لینے پر مجبور کر دیا۔
یہ عنصر تھا مذہب کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ جس میں تشویش کا اظہار سب سے پہلے امریکہ کے ایک سابق صدر رچرڈ نکسن نے Foreign Affairs مجلّے میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی پر آمادگی کا اظہار کیا تو امریکہ نے اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے‘ حالانکہ جنیوا میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والا معاہدہ کسی بھی لحاظ سے مکمل اور تسلی بخش نہیں تھا۔ ان مذاکرات میں افغان مجاہدین شامل نہیں تھے‘ اس لیے اس معاہدے پر عملدرآمد کی ذمہ داری سے آزاد تھے۔ روس اور امریکہ کی حیثیت ضمانت کنندگان کی تھی‘ لیکن معاہدے کی دو اہم شقوں یعنی لاکھوں افغان مجاہدین کی واپسی اور ہمسایہ ممالک کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی پر پابندی پر کبھی عمل درآمد نہ ہوا۔ مؤخرالذکر شق کی خلاف ورزی کی براہ راست ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی تھی کیونکہ اس نے پاکستان کے ذریعے صدر نجیب اللہ خان کی حکومت کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی جاری رکھی؛ تاہم امریکہ افغانستان سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس نے اب افغانستان کو پاکستان اور سعودی عرب کے حوالے کر دیا۔ روسی فوجوں کی شکست و پسپائی سے اس کا مقصد پورا ہو چکا تھا۔
امریکہ کے نکل جانے سے بین الاقوامی برادری کی دلچسپی بھی افغان مسئلے میں کم ہو گئی اور وہ افغان مہاجرین‘ جو مغربی اور اسلامی دنیا سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انتہائی فیاضانہ امداد پر نہ صرف خود آسودہ ترین زندگی بسر کرتے تھے بلکہ امداد تقسیم کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع فراہم کرتے تھے‘ اب اپنے تمام اخراجات کیلئے حکومتِ پاکستان یا اقوام متحدہ کی محدود امداد کے محتاج ہو گئے۔ جنیوا معاہدے پر دستخط سے جس شخص کو سب سے زیادہ مایوسی ہوئی وہ پاکستان کے صدر ضیا الحق تھے کیونکہ افغان جہادکی کامیابی کی صورت میں انہوں نے اور ان کی اتحادی مذہبی جماعتوں نے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں‘ وہ روسی فوجوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی و خود مختاری کی بحالی سے کہیں بڑھ کر تھیں‘ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے علاوہ دنیا اور پاکستان میں کوئی بھی یہ خواب شیئر نہیں کرتا تھا۔ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ضیا الحق نے جنیوا معاہدے پر دستخط کی اطلاع پر بے ساختہ کہا تھا ''کوئلوں کی دلالی میں ہمارا منہ کالا ہو گیا ہے‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ مئی 1988ء میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کو عہدے سے برطرف کرنے کی دیگر وجوہات میں جونیجو حکومت کی طرف سے جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کا ''جرم‘‘ بھی شامل تھا۔
یہی انجام مشرف دور میں پاکستان کی افغان پالیسی کو دیکھنا پڑا۔خفیہ ادارے کے ایک سابق ڈی جی کے یو ٹیوب پر نشر ہونے والے ایک بیان کے مطابق ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان نے افغان گروپس کو کچلنے میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں‘ ان میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ افغانستان اور افغان عوام کے بارے میں دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے‘ مگر ایک حقیقت کا ذکر کم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ سب افغانوں میں افغانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ سب اپنے آپ کو افغان کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندرونی معاملات میں‘ خواہ ان کا تعلق جنگ سے ہو یا امن سے‘ بیرونی مداخلت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔ پاکستان کی غیر مستقل پالیسی سے افغانستان خصوصاً شہری علاقوں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عام تاثر یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان نے افغانستان کی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر اپنے قومی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اور نمایاں افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کا خاتمہ رہا ہے مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کا مسلسل بوجھ اٹھانے‘ افغانستان میں جنگ‘ خانہ جنگی اور بیرونی افواج کے حملوں سے پیدا ہونے والی مشکلات‘ جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں‘ اگرچہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان کی طرف سے طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کے تعلقات کے قیام اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی امداد کی مسلسل اپیل کی جا رہی ہے‘ لیکن پاکستان میں 70 ہزار معصوم شہریوں‘ فوج اور پولیس کے جوانوں اور افسروں کی شہادت کی ذمہ دار ٹی ٹی پی کو اب بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے طالبان نہیں روک سکتے۔
جہاں تک افغانستان میں پاکستان کے سب سے اہم سٹریٹیجک مقصد یعنی بھارت کے اثر و رسوخ کی بیخ کنی کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ گلبدین حکمت یار کے ایک حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے باوجود افغانستان پاکستان سے دور اور بھارت کے نزدیک جا رہا ہے۔ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر افسر نے وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد افغان وزیر خارجہ نے ایک باقاعدہ بیان میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں مزید فروغ کے امکانات کی امید اور خواہش کا اظہار کیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں