دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین‘ اور ان کی صف میں کھڑے ہونے کیلئے تیار 20 ممالک کی تنظیم G20 کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک کانفرنس حال ہی میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن‘ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور چینی وزیر خارجہ وانگ ژی بھی شامل تھے۔ کانفرنس کا اصل مقصدکووڈ19 سے عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینا اور دنیا کو درپیش توانائی اور خوراک کے مسائل کا حل ڈھونڈنا تھا‘ لیکن کانفرنس کو کور کرنے والے عالمی اور مقامی میڈیا کی نظریں کانفرنس سے ہٹ کر سائیڈلائن پر امریکی اور چینی وزرائے خارجہ کی ملاقات پر مرکوز تھیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس کے ختم ہونے کے بعد چینی وزارتِ خارجہ کی طرف سے تو ایک مختصر سا بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ چینی اور امریکی وزرائے خارجہ نے کھل کر دوطرفہ مسائل پر بات چیت کی ہے اور ایک دوسرے کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا ہے‘ لیکن امریکی وزیر خارجہ (سیکرٹری آف سٹیٹ) نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں چین سے شکوہ کیا کہ یوکرین کے مسئلے پر چین جس طرح روس کا ساتھ دے رہا ہے‘ امریکہ کو اس پر سخت تشویش ہے اور ساتھ ہی یہ وارننگ بھی جاری کر دی کہ اگر یوکرین کی جنگ میں روس کو چین کی طرف سے عسکری امداد فراہم کی گئی تو اسے امریکہ کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں امریکہ میں چینی درآمدات پر ٹیرف میں اضافہ بھی شامل ہے۔
یوکرین کی جنگ پر چین کا موقف یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یوکرین کی حکومت کو اشتعال دلا کر روس کو تادیبی کارروائی پر مجبور کیا۔ چین نے امریکہ اور یورپی ممالک سے بھی اپیل کی ہے کہ آگ پر تیل چھڑکنے کے بجائے یوکرین میں باہمی گفت و شنید سے جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کیا جائے۔ ابھی تک چین نے روس کو ہتھیار فراہم نہیں کئے مگر دوطرفہ تجارت‘ خصوصاً روس سے تیل اور گیس خریدنے کے معاہدے کر کے روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو ممالک کی اقتصادی پابندیوں کے اثر کو زائل کرنے میں مدد دی ہے۔یوکرین میں جنگ کا رخ امریکہ کے حق میں نہیں جا رہا بلکہ بعض ماہرین کے مطابق یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔ امریکہ اس ممکنہ شکست کی ذمہ داری چین پر ڈالنا چاہتا ہے ۔ امریکہ کے اس موقف کا جواب دینے کیلئے چینی وزیر خارجہ نے بالی کانفرنس کے دو روز بعد انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ''آسیان‘‘ کے سیکرٹریٹ میں ایک تفصیلی بیان جاری کیا۔ اس بیان میں چینی وزیر خارجہ نے اگرچہ کووڈ19 سے عالمی معیشت اور تجارت کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کیلئے اقدامات‘ تجارت میں اضافہ کرنے کیلئے تجاویز اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے اقدامات پر زور دیا مگر چینی وزیر خارجہ کے خطاب کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بیان کے ایک حصے میں چینی وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کا ذکر کیا ہے‘ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی اہم مسائل پر اختلافات ہیں لیکن ان اختلافات کو دور کرنے کیلئے مثبت رویہ اپنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے خیال میں اقتصادی پابندیوں سے یوکرین کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اس سے عالمی معیشت خصوصاً توانائی اور خوراک کی فراہمی متاثر ہو گی اور اس کے نتیجے میں عالمی عدم استحکام پیدا ہو گا۔ یہ صورتحال کسی طرح بھی عالمی امن کیلئے سود مند نہ ہو گی۔ اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایشیا اور بحرالکاہل کے اردگرد واقع ممالک کو خطے سے باہر کی طاقتوں کی سیاسی اور عسکری چالوں سے خبردار رہنا چاہئے جو انہیں جیو سٹریٹیجک مفادات کیلئے شطرنج کے مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ مسٹر وانگ کا اشارہ بھارت کی طرف تھا جو وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت ایشیا پیسفک میں چین کے خلاف امریکہ کی نئی حکمت عملی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی اس نئی حکمت عملی کا سب سے اہم منصوبہ Quad یعنی Quadrilateral Security Dialogue ہے۔ یہ ایک غیر رسمی اتحاد ہے مگر چین کے مقابلے میں ممبر ممالک کے درمیان سکیورٹی‘ تجارت اور دفاع کے شعبوں میں اشتراک اور تعاون کو فروغ دینا اس کی اولین ترجیح ہے۔ امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت اس کے مستقل اراکین ہیں‘ لیکن خطے کے باقی ممالک جن میں جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے علاوہ بحرالکاہل میں چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک مثلاً فجی‘ مارشل آئی لینڈز‘ کری باٹا شامل ہیں‘ کو 'کواڈ‘ کے منصوبوں میں شریک کیا جاتا ہے۔ کواڈ کے چار مستقل ممبران کے درمیان سفارتی تعاون اور جنگی تیاریوں کو فروغ دینے کیلئے مالا بار بحری مشقیں کی جاتی ہیں۔ ابتدا میں یہ مشقیں صرف امریکہ اور بھارت کے درمیان منعقد کی جاتی تھیں لیکن 2015ء میں اس میں جاپان کو بحیثیت ایک مستقل رکن شامل کر کے امریکہ‘ آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل چار ملکوں کا اتحاد قائم کیا گیا۔ اس کاArea of Responsibility بحرِہند سے لے کر جاپان‘ کوریا اور تائیوان کے ارد گرد سمندروں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالا بار بحری مشقیں‘ جن میں ممبر ممالک کے طیارہ بردار جہاز‘ فریگیٹ ‘ آبدوزیں اور دیگر جہاز شرکت کرتے ہیں‘ بحرِ ہند‘ خلیج فارس‘ بحیرہ عرب‘ خلیج بنگال اور بحرالکاہل میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس پورے خطے میں چین کے اہم مفادات موجود ہیں۔ چین کی درآمدی اور برآمدی تجارت خصوصاً تیل‘ گیس اور دیگر خام اشیا کی ترسیل بحرِ ہند‘ آبنائے ملاکا اور بحیرہ چین کے راستے ہوتی ہے۔ کواڈ کا قیام اور اس کے تحت خطے کے مختلف ممالک کو چین کے متبادل سکیورٹی‘ تجارت اور علاقائی روابط کی تشکیل امریکی صدر جو بائیڈن کی ایشیا کے بارے میں پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔
اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں موجودہ امریکی صدر چین کو روس سے زیادہ امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یوکرین میں روسی حملے کے خلاف سخت گیر پالیسی اختیار کر کے امریکہ دراصل چین کیلئے ایک مثال قائم کرنا چاہتا ہے کہ تائیوان کی طرف سے آزادی یا کسی غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیزی کی صورت میں چین اس پر حملہ کرنے سے باز رہے‘ حالانکہ امریکہ کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ چین کا تائیوان پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں‘ لیکن اگر تائیوان نے یک طرفہ آزادی کا اعلان کیا تو چین نتائج کی پروا کیے بغیر اس پر حملہ کر کے قبضہ کر لے گا۔
بھارت کی موجودہ حکومت اس صورتحال پر خوش ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سمجھتے ہیں کہ چین کے خلاف امریکہ کی حکمت عملی کا حصہ بن کر چین سے بھارتی شرائط پر سرحدی تنازع کا حل حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امریکی حکمت عملی میں شمولیت اختیار کر کے بھارت چین کے خلاف کسی جارحیت کا ارتکاب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کا مقصد بحرِ ہند سے لے کر بحرالکاہل تک جیو سٹریٹیجک اہمیت کے حامل تمام مقامات مثلاً آبنائے ہرمز‘ بحر احمر اور آبنائے ملاکا پر امریکہ کے ساتھ مل کر کنٹرول حاصل کرنا ہے تاکہ اس کنٹرول کو چین کے ساتھ برسوں پرانے سرحدی تنازع کو اپنی شرائط پر حل کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔امریکہ اور بھارت کا مشترکہ مقصد پاکستان چین اکنامک کوریڈور کو ناکام بنانا ہے تاکہ اس کے ذریعے چین گوادر تک رسائل حاصل کر کے بحر ہند کے شمالی مغربی حصے (بحیرہ عرب اور خلیج فارس) میں موجود امریکہ کی عسکری اور سیاسی موجودگی اور تجارت اور سرمایہ کاری کی صورت میں امریکی اور مغربی مفادات کیلئے چیلنج نہ بن سکے۔