"DRA" (space) message & send to 7575

صدر بائیڈن نے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیوں کیا؟

جو حلقے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے جا رہا ہے‘ صدر جو بائیڈن کے حالیہ دورے سے ان پر واضح ہو گیا ہو گا کہ امریکہ نہ صرف اس خطے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا بلکہ اس کے صدر نے اسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ کر کے خطے میں امریکہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس حکمت عملی میں مرکزی کردار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ادا کریں گے جبکہ اسرائیل اور بھارت اس حکمت عملی کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے ضروری سہولتیں مہیا کریں گے۔ اپنی صدارتی مہم میں جو بائیڈن سعودی عرب کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے اور صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جو اقدامات کیے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ موجودہ امریکی صدر کے دورِ حکومت میں امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ رہیں گے حالانکہ ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کے ساتھ سلوک انتہائی دوستانہ تھا جبکہ جو بائیڈن سعودی عرب خصوصاً ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے بلکہ سابقہ حکومتوں کی پالیسی کے برعکس سعودی عرب کو جدید ہتھیار فروخت کرنے سے انکار بھی کر دیا۔ گزشتہ سال امریکہ نے جس عجلت میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالیں‘ اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی دوست ملکوں خصوصاً سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی ۔ عرب ریاستوں میں یہ خدشہ پختہ ہونے لگا کہ افغانستان کی بعد امریکہ مشرق وسطیٰ میں بھی اپنی عسکری قوت میں کمی کر دے گا۔ پچھلے سال اگست میں جب صدر جو بائیڈن کے حکم سے سعودی دارالحکومت ریاض کے دفاع کیلئے نصب میزائل سسٹم اور پیٹریاٹ کی بیٹریاں ہٹا دی گئیں تو سعودی عرب کو یقین ہو گیا کہ نیا امریکی صدر سعودی عرب کے دفاع کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں۔ اس کے ساتھ یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ مشرق وسطیٰ میں مختلف امریکی اڈوں پر مقیم ہزاروں امریکی جوانوں اور افسروں کو واپس بلا لیا جائے گا۔
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو امید تھی کہ صدر جو بائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے خلاف سخت گیر پالیسی جاری رکھیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015ء میں کیے گئے جوہری معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا اور ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں‘ لیکن بائیڈن نے ٹرمپ کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے ایران کے ساتھ پُرانے معاہدے کو بحال کرنے کیلئے نہ صرف مذاکرات کا آغاز کیا بلکہ تہران پر عائد شدہ پابندیوں کو بھی نرم کر دیا ۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک نے محسوس کیا کہ جس طرح صدر بائیڈن افغانستان میں طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کیلئے بے چین تھے‘ اسی طرح وہ ایران کے ساتھ بھی مذاکرات کر کے پرانے جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے علاقے میں امریکہ کے دوست ممالک میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا اور انہوں نے امریکہ سے مایوس ہو کر سکیورٹی کے متبادل انتظامات کرنا شروع کر دیے۔
امریکہ کیلئے اب اپنے پرانے اتحادی ممالک کی سلامتی کے بجائے خطے اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں روس اور چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ زیادہ تشویش کا باعث تھا‘ جیسا کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ امریکہ اب اپنی توانائیوں اور وسائل کو تیزی سے ابھرتے ہوئے نئے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کرے گا۔ یہ نئے خطرات چین اور روس ہیں‘ جن سے مشرق وسطیٰ کو محفوظ رکھنے کیلئے صدر بائیڈن نے اپنے حالیہ دورے کے دوران عزم کا اظہار کیا ہے‘ لیکن اصل مسئلہ جس نے بائیڈن کو مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے اور سعودی عرب کے ولی عہد کے ساتھ برابر کی نشست پر بیٹھنے پر مجبور کیا ہے‘ یوکرین کی جنگ ہے‘ جس نے پوری دنیا میں توانائی اور خوراک کی کمی کا بحران پیدا کر دیا ہے۔
اس بحران سے شدید طور پر متاثر ہونے والوں میں امریکہ کے اہم ترین اتحادی نیٹو کے رکن ممالک بھی ہیں‘ جو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تقریباً کلیتاً روس پر انحصار کرتے تھے‘ لیکن یوکرین کی جنگ اور امریکی دبائو کے تحت روس سے تیل اور گیس کی خریداری پر پابندی کی وجہ سے اب سخت پریشان ہیں۔ آئندہ موسم سرما کی آمد کا سوچ کر یہ ممالک اور بھی پریشان ہو رہے ہیں‘ اور چونکہ امریکہ نے یوکرین میں روس کے جنگی مقاصد کو ناکام بنانے کیلئے نیٹو اور مغربی یورپ کی مدد پر انحصار کر رکھا ہے‘ اس لیے امریکہ توانائی کے حصول کیلئے سعودی عرب سے رابطہ قائم کرنے پر مجبور ہوا۔سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا واحد ملک ہے جو خام تیل کی پیداوار میں دنیا میں اول نمبر پر ہونے کے باوجود اپنی یومیہ پیداوار میں 15 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
صدر بائیڈن اپنے حالیہ دورے میں پہلے اسرائیل گئے اور اسرائیل کے نئے عبوری وزیر اعظم سے ملے۔ انہوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کا دورہ کیا اور فلسطین کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے زمانے میں فلسطینیوں کیلئے جو امداد روک دی گئی تھی‘ صدر بائیڈن نے اسے بحال کر دیا ہے۔ اسی طرح صدر بائیڈن نے جدہ میں یو اے ای کے نئے سربراہ شہزادہ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی بلکہ دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات کو مزید بڑھانے کیلئے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ صدر جو بائیڈن نے اپنے دورے کو مزید وسعت دیتے ہوئے خلیج تعاون کونسل کے سربراہان کے ساتھ بھی ملاقات کی؛ تاہم صدر جو بائیڈن کے سفر کی اصل منزل سعودی عرب تھی۔ صدر بائیڈن نے عازمِ سفر ہونے سے پہلے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں خود اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطے میں روس اور چین کی طرف سے قدم جمانے کے خلاف امریکی کوششوں کی کامیابی کیلئے سعودیہ جیسے ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اس وقت دو چیزیں امریکہ کو سعودی عرب کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ پہلی تیل اور دوسری اس کی وسیع منڈی۔ سعودی شاہ اور ولی عہد سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں ان دونوں چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کی بہت سی کمپنیاں سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ سعودی عرب نے بھی اس کو آسان بنانے کیلئے امریکی سرمایہ کاروں اور بزنس کرنے والے لوگوں کیلئے ویزے کی مدت میں توسیع کر کے اس میں 10 سال تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے اپنی فضا کو دنیا کی تمام فضائی کمپنیوں کے جہازوں کیلئے کھول دیا ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ فیصلہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے قدم بہ قدم تعلقات کے قیام کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے کیا گیا ہے‘ جس کا ثبوت صدر جو بائیڈن کی اسرائیل سے پہلی دفعہ براہ راست فلائٹ ہے۔ صدر بائیڈن نے اسے تاریخی اقدام قرار دیا ہے؛ تاہم اپنے دورے میں مسئلہ فلسطین کے حل اور یمن میں مستقل امن کے قیام کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے صدر بائیڈن کے دورے پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں امریکی موقف کو دہرایا ‘ لیکن اس کیلئے جن عملی اقدامات کی ضرورت ہے‘ اس کیلئے کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں یمن کا ذکر موجود ہے مگر اقوام متحدہ کی مدد سے گزشتہ چند ہفتوں سے جاری جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر بائیڈن نے صرف چند امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور علاقے کے امن‘ استحکام اور خوشحالی میں امریکہ کی دلچسپی ظاہر نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں