دنیا کا کوئی ملک یا قوم ایسی نہیں جسے اپنی تاریخ میں قومی سلامتی اور ترقی کے سفر کے دوران مشکلات اور بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو‘ اس لیے پاکستان اگر اس وقت ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے تو اس پر کسی حیرانی اور تعجب کا جواز نہیں۔ ملک کی گزشتہ 75 سالہ زندگی میں چھوٹے بڑے کئی بحران آئے لیکن دو مواقع ایسے ہیں جب نہ صرف ریاست کا آئینی اور قانونی ڈھانچا دھڑام سے زمین بوس ہو گیا بلکہ ملک کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت بھی شدید خطرے میں پڑ گئی تھی۔ پہلا بحران 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے پہلی مجلس آئین ساز تحلیل کرنے سے پیدا ہوا تھا‘ اور دوسرا 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی شکست اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا نتیجہ تھا۔ پاکستان اور بھارت نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی تھی لیکن موخرالذکر نے صرف دو سال کے اندر نیا آئین تشکیل دے کر اسے 26 جنوری 1950 ء کو نافذ کر دیا؛ البتہ اول الذکر کو آئین سازی کے عمل کی تکمیل میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں؛ تاہم اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ بانیانِ پاکستان کو دو ایسے خطوں کو جوڑ کر ایک قوم کی شکل دینے کا چیلنج درپیش تھا جو نہ صرف ایک ہزار میل سے زائد فاصلے پر تھے بلکہ مذہب کے سوا ان میں کوئی قدرِ مشترک نہ تھی؛ تاہم ''امریکہ سے امپورٹڈ‘‘ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے آئین سازی کے پہلے سے کیے گئے بہت سے کام کے باقی ماندہ حصے کو مکمل کر کے پاکستان کے پہلے آئین کا مسودہ تیار کر لیا۔ اس پر اسمبلی نے بحث بھی مکمل کر لی۔ پاکستان کے مشہور پروفیسر اور مصنف جی ڈبلیو چودھری (Constitutional Development in Pakistan) کے مطابق 25 دسمبر 1954ء کو اس کے نفاذ کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا گیا تھا‘ لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 ء کو آئین ساز اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
گورنر جنرل نے کس بنیاد پر یہ قدم اٹھایا؟ اسمبلی کی تحلیل کے اعلان میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی؛ تاہم بیشتر آئینی اور قانونی ماہرین کی نظر میں اسمبلی کی طرف سے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی دفعات 9‘ 10 اور 10بی کے تحت گورنر جنرل کے خصوصی اختیارات‘ جن میں کابینہ کی برطرفی کے اختیارات بھی شامل تھے‘ میں ترمیم اس کی سب سے اہم وجہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی گورنر جنرل نے وزیر اعظم بوگرہ کی کابینہ میں میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بالترتیب وزیر داخلہ اور وزیر دفاع مقرر کر دیا اور یوں بقول حامد خان (Constitutional and Political History of Pakistan) پاکستان میں سویلین بالادستی کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ لیکن قومی سیاست میں فوج کی مداخلت کا آغاز ایوب خان کی تقرری سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ The Destruction of Pakistan's Democracy کے مصنف امریکی سکالر ایلن میگراتھ (Allen McGrath) کے مطابق آئین ساز اسمبلی کی تحلیل سے ڈیڑھ سال قبل اپریل 1953ء میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کرنے کے اقدام میں گورنر جنرل غلام محمد کو عسکری اداروں کی حمایت حاصل تھی۔آئین ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان نے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اقدام کو چیلنج کر دیا۔ چونکہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ء جسے پاکستان اور بھارت‘ دونوں نے باقاعدہ آئین کی تشکیل تک عبوری آئین کے طور پر اپنایا ہوا تھا‘ میں گورنر جنرل کے آئین ساز اسمبلی توڑنے کے اختیارات درج نہیں تھے‘ اس لیے سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی‘ مگر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر فیڈرل (سپریم) کورٹ آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر کے گورنر جنرل کے اقدام کو برقرار رکھا۔ گورنر جنرل اسمبلی تحلیل کرنے کے اپنے اقدام کو سپریم کورٹ کے فیصلے‘ جس میں سب سے پہلے نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا گیا تھا‘ کی روشنی میں برقرار رکھوانے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن ملک ایک ایسے آئینی اور قانونی بحران کے بھنور میں پھنس گیا جس کی وجہ سے بقول جی ڈبلیو چودھری خود ریاست پاکستان کی بقا خطرے میں پڑ گئی تھی‘ مگر اس موقع پر فیڈرل کورٹ نے مداخلت کی جس کی ہدایات کی روشنی میں پاکستان نہ صرف بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا بلکہ ملک نے پہلا آئین (1956ء) بھی حاصل کر لیا۔
دوسرا بڑا بحران 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی شکست کی پیداوار تھا۔ ملک کا آدھا حصہ ہاتھ سے نکل گیا‘ 90 ہزار فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں تھے۔ آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان کی بھارت کے ساتھ سرحد سے ملحقہ ہزاروں مربع ایکڑ علاقہ دشمن کے قبضے میں تھا۔ مشرقی پاکستان کی محفوظ منڈی کھو جانے کی وجہ سے معیشت شدید مسائل کا شکار تھی۔ ایسے میں مغربی پاکستان سے 1970 ء کے انتخابات میں اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف معیشت کو بحال کیا بلکہ قومی دفاع کو بھی مضبوط کیا۔ سب سے اہم یہ کہ ملک کو ایک متفقہ آئین دیا جس کے ذریعے پارلیمانی نظامِ حکومت کو بحال کر دیا گیا‘ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کارنامہ اکیلے سرانجام نہیں دیا تھا‘ نہ وہ اکیلے ایسا کر سکتے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن کو آن بورڈ لیا‘ حالانکہ انتخابات کے دوران اپوزیشن والوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل اور نفاذ کے بعد پاکستان میں دو دفعہ مارشل لا حکومتیں جنرل ضیا (1977 تا 1988ء) اور جنرل پرویز مشرف (1999 تا 2008ء)برسر اقتدار آئیں۔ انہوں نے اپنی سہولت کیلئے ترامیم کے ذریعے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا مگر آئین برقرار رہا اور پاکستان کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑا جو ایوب خان اور یحییٰ خان کے ادوار میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کا کریڈٹ سب سے زیادہ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے‘ جنہوں نے قومی اتفاقِ رائے کو ملک کی اندرونی سیاست کی بنیاد بنایا؛ تاہم اس میں اس وقت کی اپوزیشن کے کردار کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چار پانچ ماہ سے جاری قومی بحران کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس سے ملک کو نکالنے کیلئے نہ تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو جیسا دور اندیش‘ ذاتی‘ گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر پالیسی بنانے والا محبِ وطن رہنما موجود ہے اور نہ کوئی ایسا ادارہ باقی رہ گیا ہے‘ جس کی مداخلت کو عوام بغیر کسی تحفظات کے خوش آمدید کہہ سکیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں حکومت سے الگ ہو کر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو جلسے جلوسوں میں لا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ بلا شبہ ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور وہ عوام کو کسی بھی سمت میں لے جانے کی اہلیت رکھتے ہیں‘ مگر ان کی تمام تر توجہ اور توانائیاں اپوزیشن کوکچلنے پر مرکوز ہیں حالانکہ 2018 ء کے انتخابات کے نتائج کے مطابق موجودہ اپوزیشن میں شامل چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں ملک کے 70 فیصد اہل ووٹرز کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں بحران پر قابو پانے میں مدد دینے کیلئے جس قسم کی اہلیت کی مالک لیڈرشپ کی ضرورت ہے وہ پاکستان میں نظر نہیں آتی۔ یہی حال ہمارے اداروں کا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تقریباً ہر ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ تو اب بحران ختم کرنے کیلئے کون آگے آئے گا؟ صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ سول سوسائٹی سیاسی کارکنوں‘ دانشوروں اور آزاد میڈیا پر مشتمل لابی میدان میں آئے اور تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں سے آئینی حدود میں سختی سے رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا پُر زور مطالبہ کرے اور ملک کو اس بحران سے نجات دلائے۔