الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ممنوعہ ذرائع سے فنڈ حاصل کرنے کے مقدمہ میں جو فیصلہ دیا ہے اس پر پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم‘ اور ان کے سینئر ساتھیوں نے جس رد عمل کا اظہار کیا ہے‘ اس پر مجھے 13 ستمبر 1977ء کا وہ دن یاد آ رہا ہے جب لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس کے ایم اے صمدانی نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا الحق کی قید سے ضمانت پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے جناب بھٹو سے پوچھا کہ اگلی پیشی کون سی تاریخ پر رکھی جائے؟ Any day after elections my lord ‘بھٹو صاحب نے ان انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے‘ جن کے انعقاد کا وعدہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا نے پانچ جولائی کی تقریر میں پوری قوم سے کیا تھا۔ اس وقت اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کی مقبولیت عروج پر تھی۔ انہیں یقین تھا کہ وہ یہ انتخابات جیت جائیں گے۔ اس بارے میں اگر کسی کو کوئی شک تھا تو وہ آٹھ اگست 1977ء کو جناب ِبھٹو کی کراچی سے لاہور ایئرپورٹ پر آمد کے موقع پر خوش آمدید کہنے والے عوام کے عدیم المثال جم غفیر سے دور ہو گیا۔ باقی تاریخ سب جانتے ہیں کہ وہ انتخابات کبھی منعقد نہیں ہوئے اور جناب بھٹو کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا۔
اب بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔ ایک آئینی ادارے نے آٹھ سال کی تفتیش کے بعد پاکستان کی بلا شبہ سب سے مقبول پارٹی کے سربرا ہ پر غیر ملکی باشندوں اور کمپنیوں سے پارٹی کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے مقدمے کا فیصلہ دیا ہے۔ ان پر تیرہ بینک اکاؤنٹس چھپانے کا الزام بھی ثابت ہوا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی پر الیکشن کمیشن نے جو الزامات عائد کئے ہیں ان کی پشت پر ناقابلِ تردید ثبوت ہیں‘ لیکن ان کا اصرار ہے کہ انہیں آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی کے باوجود سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے‘ اور چیف الیکشن کمشنر نے جانبداری سے کام لیا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن کے تین مستقل ممبران نے متفقہ طور پر فیصلہ جاری کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے پی آئی ٹی اور اس کے چیئرمین کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیوں نہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کردہ فنڈ بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں؟ اس کے علاوہ فیصلے کی ایک نقل میں وفاقی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ فیصلے میں درج حقائق کی روشنی میں آئین اور قانون کے مطابق ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر عمران خا ن اور ان کی پارٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کو یقین ہے کہ حکومتی ریفرنس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی قسم کا رویہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ پانچ رکنی بینچ کے اس متفقہ اور مفصل فیصلے میں عدالت نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ وزیر اعظم اور صدرِ مملکت پر آئین کی خلاف ورزی‘ اس کا راستہ روکنے اور سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا تھا‘ بلکہ فاضل بینچ کے ایک رکن فاضل جج نے اپنے اضافی نوٹ میں آئین کے آرٹیکل چھ (آئین کے خلاف بغاوت) کے مقدمے کی طرف اشارہ کیا تھا‘ لیکن عمران خان نے اسے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا بلکہ کھلے عام حکومت کو چیلنج کیا تھا کہ وہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ دائر کرنے کی جرأت کر کے دیکھ لے۔
اس کے پیچھے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا یہ زعم ہے کہ ملک کے طول و عرض میں عوام کی بہت بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے‘ جو ان کے ایک اشارے پر گلیوں‘ سڑکوں اور شاہراہوں پر نکل سکتی ہے۔ خان صاحب خود فرماتے ہیں کہ ان کے خلاف ایکشن لیا گیا تو نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ ان کی حکمت عملی میں موجودہ وفاقی حکومت کو بلا تاخیر انتخابات پر مجبور کرنے کو ترجیح حاصل ہے۔ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ یہ انتخابات بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی حقیقت وجود میں آ جائے گی‘ جس کے سامنے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز کے حصول کا مقدمہ ہو یا کوئی اور قانونی کارروائی‘ سب ریت کا ڈھیر ثابت ہوں گے‘ لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے کیس میں بنیادی فرق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک انفرادی درخواست پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا تھا اور مارشل لاء کے دور میں ایک ایسے بینچ نے اس کی سماعت کی جس کی دیانت اور غیر جانبداری پر شروع سے ہی سوال اٹھ رہے تھے‘ اس لئے سزا پانے اور پھانسی پر چڑھ جانے کے باوجود بھٹو تاریخ میں زندہ رہے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کا زعم کسی حد تک بے جا بھی نہیں۔ تاثر یہی ہے کہ عمران خان کے کیس میں نظام عدل کا ''ہتھ ہولا‘‘ ہی ہوتا ہے اور انہیں یقین ہے کہ یہ ہاتھ ''ہولا‘‘ ہی رہے گا اس لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو یا الیکشن کمیشن کا‘ ان کیلئے زیادہ تشویش کا باعث نہیں یا کم از کم وہ ایسا ظاہر کر رہے ہیں‘ لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد کیا ہو گا‘ اس کا بہت زیادہ انحصار اس بات پر نہیں کہ عمران خان عوام کی کتنی بڑی تعداد کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں‘ اور اس کواپنی انتخابی جیت میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ بلکہ اس بات پر ہے کہ عمران خان مقتدرہ کیلئے کتنا بڑا خطرہ ہیں۔ عمران خان بھٹو سے زیادہ ہردلعزیز اور طاقتور رہنما نہیں ہیں۔ نہ ہی پی آئی ٹی کا اُس وقت کی پیپلز پارٹی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جا سکتیں۔
موجودہ صورتحال کیا ہے؟ خان صاحب اب بھی نیوٹرلز کو نیوٹریلٹی چھوڑ کر ان کے ساتھ ایک پیج پر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان (خا ن صاحب)کے سپورٹرز دعویٰ کرتے ہیں کہ اشرافیہ اورمقتدرہ کا ایک بڑا حصہ اب بھی خان صاحب کا حامی ہے۔ پی ڈی ایم والے دہائی دے رہے ہیں کہ عمران خان کو لاڈلا سمجھ کر اب بھی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ کے چند فیصلوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں توازن پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعت کے حق میں چلا گیا اور حمزہ شہباز کے بجائے چودھری پرویز الٰہی اکثریتی ووٹو ں کے ساتھ وزیر اعلیٰ بن گئے‘ لیکن یہ مساوات بدل سکتی ہے‘ اگر عمران خان اپنے جارحانہ انداز سے قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ اندرونی حرکیات کے علاوہ بیرونی ڈائنامک کردار بھی اہم ہو سکتا ہے کیونکہ خان صاحب اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کے بیانیے کی اتنی تشہیر کر چکے ہیں کہ اس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم غالباً انہی خدشات کو ختم کرنے کے لیے کچھ عرصہ سے ملک کے لیے ایک مضبوط فوج کی ضرورت اور دنیا کے تمام ممالک‘ جن میں ہمسایہ ملک بھارت اور امریکہ بھی شامل ہیں‘ کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی خواہش پر زور دے رہے ہیں‘ مگر گہرائی سے حالات کا جائزہ لینے والوں کی رائے میں‘ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Die has been castکیونکہ گزشتہ چار ماہ کے دوران میں دھواں دھار تقریروں‘ بیانات اور سوشل میڈیا پر ایک خاص سمت میں مہم نے اعتماد کی خلیج کو بہت وسیع کر دیا ہے۔