امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) کے ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی اگست کے پہلے ہفتے میں تائیوان کا دورہ کرکے واپس چلی گئیں مگر اپنے پیچھے متعدد سوالات چھوڑنے کے علاوہ مشرقِ بعید کو ایک ایسی بحرانی کیفیت میں مبتلا کر گئیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ سوال یہ پوچھے جا رہے ہیں کہ امریکہ کو اس وقت کون سی اشد ضرورت یا مجبوری تھی کہ وہ ہاؤس کی سپیکر کو تائیوان کے دورے پر بھیجتا؟ خاص طور پر اس حقیقت کے باوجود کہ چین کی طرف سے سخت رد عمل آئے گا‘ کیا امریکہ کو اس دورے سے فائدہ ہوا؟ اس دورے سے چین اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل کیا ہو گا اور اس کے علاقائی اور عالمی مضمرات کیا ہوں گے؟
1949ء میں چین کی خانہ جنگی میں چیانگ کائی شیک نے چینی کمیونسٹ پارٹی سے شکست کھا کر تائیوان کے جزیرے میں پناہ لے لی تھی۔ چونکہ اس خانہ جنگی میں چیانگ کائی شیک کی پارٹی کو امریکہ کی مکمل امداد اور حمایت حاصل تھی‘ اس لئے چیانگ کائی شیک کا پیچھا کرتے ہوئے کمیونسٹ فورسز نے جب تائیوان پر حملہ کرنے کیلئے آبنائے تائیوان کو عبور کرنا چاہا تو امریکی جنگی بحری جہازوں نے اس میں داخل ہو کر حصار باندھ لیا تھا۔ اس وقت چین عسکری لحاظ سے اتنا طاقتور نہیں تھا اس لئے انہیں تائیوان پر حملے کا ارادہ ترک کرنا پڑا مگر تائیوان کو چین کا دوبارہ حصہ بنانے کیلئے ہر حربہ‘ جس میں ضرورت کے مطابق طاقت کا استعمال بھی شامل ہے‘ کے حق کو محفوظ رکھا‘ جو آج بھی تائیوان کے بارے میں چین کی پالیسی کا ایک اہم اور مستقل حصہ ہے۔دوسری طرف چیانگ کائی شیک نے تائیوان میں اپنی حکومت کو پورے چین کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر دیا مگر امریکہ اور اس کے چند اتحادی ممالک کے علاوہ دنیا کے کسی ملک نے چیانگ کائی شیک کے دعوے کو اہمیت نہ دی اور ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے نوآزاد اور غیر جانبدار ممالک کی اکثریت نے یکے بعد دیگرے بیجنگ میں ماؤزے تنگ کی سرکردگی میں قائم ہونے والی کمیونسٹ حکومت کو پورے چین کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی‘ تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کر لیے۔ امریکہ کی طرف سے عوامی جمہوریہ چین کو پورے چین کا نمائندہ تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست تائیوان کے پاس رہی۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے ممکنہ حملے کو روکنے کیلئے امریکہ نے نہ صرف تائیوان کو جدید ترین ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھی بلکہ آبنائے تائیوان میں امریکہ کے بحری جنگی جہازوں کا گشت بھی شروع کر دیا۔ ان اقدامات اور پھر کوریا (1950-51ء) اور ویت نام (1954-1974ء) کی جنگوں نے چین اور امریکہ کے تعلقات کو سخت کشیدگی بلکہ محاذ آرائی کی حالت میں رکھا۔ اس کا ایک اظہار سیٹو (SEATO) کا معاہدہ تھا جسے امریکہ نے 1954ء میں دیگر سات ممالک بشمول پاکستان کو ملا کر چین پر عسکری دباؤ ڈالنے کیلئے قائم کیا تھا‘ مگر حالات نے امریکہ کو یہ پالیسی ترک کرنے پر مجبور کر دیا اور 1972ء میں صدر نکسن کے دورے کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان نارمل سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔
جس بنیاد پر چین اور امریکہ کے درمیان نارمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے اس میں امریکہ کی طرف سے تائیوان کو ایک علیحدہ اور آزاد ملک کی بجائے چین کا حصہ تسلیم کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں عوامی جمہوریہ چین کی نشست بحال ہو گئی‘ مگر امریکہ نے دو طرفہ بنیادوں پر تائیوان کے ساتھ تعلقات بحال رکھے بلکہ امریکی کانگرس میں تائیوان کی حامی لابی کے تحت تائیوان کو امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی سپلائی بھی جاری رکھی۔ اس طرح چین اور امریکہ کے تعلقات میں تائیوان کو بدستور ایک تنازع کی حیثیت حاصل رہی۔ سرکاری سطح پر امریکہ تائیوان کو چین کا حصہ سمجھتا ہے لیکن در پردہ امریکہ تائیوان میں چین مخالف لابی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ جو کہ چیانگ کائی شیک اور ان کی جماعت کومن تانگ کی باقیات میں سے ہیں۔ اگرچہ امریکہ اور تائیوان کے درمیان باقاعدہ کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہے مگر ایشیا پیسفک کی موجودہ جیو سٹریٹجک صورتحال میں امریکہ خطے میں چین کے بڑھے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے اسے ایک ہراول دستہ سمجھتا ہے۔ امریکہ میں چین کی مخالف لابی کی شہ پر تائیوان میں ایسے عناصر نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جو تائیوان کی چین سے علیحدگی اور اس کی آزادی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ چین تائیوان کو ضم کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کرنے سے گریز کرے گا‘ لیکن اگر تائیوان نے آزادی کا اعلان کیا تو چین اس پر فوراً حملہ کر دے گا۔ اس لئے امریکہ فی الحال تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرے گا‘ مگر تائیوان میں آزادی کے حامی عناصر کی حمایت جاری رکھے گا تاکہ یوکرین پر چین کی طرف سے روس کی حمایت کے پاداش میں چین پر دباؤ ڈال سکے۔ نینسی پلوسی کا دورہ اسی مقصد کیلئے تھاکیا یہ مقصد حاصل ہوا؟ اس سوال کا جواب امریکی میڈیا میں تبصروں کی صورت میں سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ یہ دورہ ''ایک غیر ضروری اشتعال انگیزی تھا‘‘ یعنی اس کا مقصد چین کو مشتعل کرنا تھا تاکہ وہ روس کی طرح یوکرین پر حملہ کرنے کی غلطی کرے‘ لیکن چین نے ضبط سے کام لے کرامریکہ کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ روس کی طرح چین کو بھی اس کے علاقوں کی حدود میں ایک جنگ میں الجھا کر اس کی معیشت کو اسی طرح نقصان پہنچائے جس طرح وہ یوکرین کی جنگ کو طول دے کر روس کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ مگر چین اپنی قومی ترقی کے عمل میں اس سطح پر ہے جہاں وہ سمجھتا ہے کہ جنگ اس عمل کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن جائے گی۔ تاہم نینسی پلوسی کے دورے کے خلاف رد عمل ناگزیر تھا اور اس کے نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ نقصانات اٹھانے والوں میں تو خود تائیوان شامل ہے۔ چین تائیوان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ اس کی کل برآمدات کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ چین کو جاتا ہے۔ ہزاروں تائیوانی کمپنیوں نے چین میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس سے ہزاروں تائیوانی باشندوں کا روزگار وابستہ ہے۔
امریکی کانگرس کی سپیکر کے دورے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے پورے ایشیا پیسفک کے خطے میں عدم تحفظ‘ عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے‘ کیونکہ چین کی افواج کی طرف سے تائیوان کے گرد و نواح میں اسلحہ کے ساتھ فوجی مشقوں کا سلسلہ جاری ہے۔بہت سے تبصرہ نگاروں کی نظر میں امریکہ نے یہ غیر ضروری اشتعال انگیزی دو مقاصد حاصل کرنے کیلئے کی ہے۔ ایک تو وہ یوکرین کی جنگ کے مسئلے پر روس کا ساتھ دینے پر چین کو سزا دینا چاہتا ہے‘ مگر اس سے زیادہ اہم مقصد دنیا کو یہ یقین دلانا ہے کہ امریکہ اب بھی عسکری اور معاشی لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور وہ ابھرتے ہوئے چین کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور جو خطے انیسویں صدی کے آخری حصے سے اب تک امریکہ کے حلقہ اثر میں رہے ہیں ان میں اپنی پوری طاقت اور اثرورسوخ کے ساتھ موجود رہے گا۔ ان خطوں میں سب سے پہلے اور سب سے اہم پیسفک کا خطہ ہے جس میں امریکہ کے جاپان‘ جنوبی کوریا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے اتحادی موجود ہیں۔ اب امریکہ کو بحر ہند اور مشرق وسطیٰ میں بھی اپنے اہم مفادات کو چین سے خطرہ لاحق نظر آتا ہے‘ جسے مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے امریکہ نے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت کو بھی ملا کر ایک غیر رسمی مگر فنکشنل دفاعی اتحاد کوآڈ (Quad) بنا رکھا ہے۔ امریکی حکمت عملی یہ ہے کہ اس خطے میں چین کو کبھی بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحد پر اور کبھی تائیوان میں الجھا کر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا جائے۔ نینسی پلوسی کا دورۂ تائیوان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔