گزشتہ 73 برسوں سے تائیوان کا مسئلہ چین‘ امریکہ اور تائیوان پر مشتمل تکون کے گرد گھومتا ہے‘ لیکن اب اس میں ایک اور عنصر شامل نظر آتا ہے اور وہ ہے بھارت۔ بحث ہو رہی ہے کہ بحرالکاہل کے خطے کے علاوہ بحرِ ہند اور جنوبی ایشیا کی سلامتی پر تائیوان کے بگڑتے ہوئے بحران کا کیا اثر پڑے گا؟ تائیوان کے موجودہ بحران میں بھارت کیا کردار ادا کر سکتا ہے اور اگر اس مسئلے پر چین اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑ جائے تو بھارت دونوں میں سے کس کا ساتھ دے گا؟
بحرالکاہل‘ جنوب مشرقی ایشیا اور بحرِ ہند کے خطوں کا دفاع اور سلامتی نوآبادیاتی دور سے ہی آپس میں منسلک رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں جب جاپان کی بحری افواج نے آبنائے ملاکا پر قبضہ کر کے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کی طرف پیش قدمی کی کوشش کی تو یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آ ئی تھی‘ اسی لئے برطانیہ نے عدن‘ کولمبو اور سنگا پور میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو مزید مستحکم بنایا تھا‘ مگر 1970ء کی دہائی کے آغاز پر جب برطانیہ نے اقتصادی دباؤ کے تحت نہر سویز سے مشرق میں واقع اپنی سابقہ نوآبادیات میں قائم اڈوں سے اپنی فوجوں کو واپسی بلانے کے عمل کا آغاز کیا تو اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کیلئے امریکہ نے اپنی بحری‘ فضائی اور زمینی فوجوں کو علاقے میں داخل کر دیا۔ امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے جنگی جہاز‘ آبدوزیں اور طیارہ بردار جہاز‘ جن کی ذمہ داری اس سے قبل صرف بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کے سمندروں تک محدود تھی‘ اب باقاعدہ طور پر بحر ہند کا گشت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ 1990ء کی دہائی سے بھارت نے اپنی Look-East پالیسی کے تحت جنوب مشرقی ایشیا خصوصاً ASEAN کے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادی‘ تجارتی‘ ثقافتی اور سکیورٹی کے شعبوں میں جو قریبی تعلقات قائم کرنے کا عمل شروع کیا تھا وہ ابQuad کی صورت میں امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ہمراہ سٹریٹیجک پارٹنرشپ اختیار کر چکا ہے۔ اس اتحاد کے تحت‘ جس کے ساتھ بحرالکاہل کے دیگر ممالک بھی بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں‘ ہر سال ہونے والی ''مالا بار‘‘ بحری مشقوں میں امریکی‘ جاپانی اور آسٹریلوی جنگی جہازوں کے ساتھ بھارت کے جنگی جہاز بھی حصہ لیتے ہیں۔ کبھی بحیرہ جاپان میں اور کبھی خلیج بنگال میں ان چار ملکی بحری مشقوں کے انعقاد سے جو پیغام دینا مقصود ہے‘ وہ یہ ہے کہ اب بحرالکاہل اور بحر ہند کے خطوں کی سلامتی اور استحکام کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اس لئے تائیوان کا بحران اگر طول پکڑتا ہے یا اس کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر جنوبی ایشیا پر بھی پڑے گا۔
بھارت‘ جس نے امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ اتحاد میں شرکت کر رکھی ہے اور اس کی فوجی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لیتا ہے‘ کو تائیوان کے مسئلے پر اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑے گی‘ مگر دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اب تک ایک معنی خیز چپ سادھ رکھی ہے۔ اس پر کوئی اور ہو یا نہ ہو‘ بھارتی میڈیا بڑا اَپ سیٹ ہے۔ اس کے خیال میں مودی کو یہ چپ توڑ دینی چاہیے اور کھل کر امریکی موقف کی حمایت میں بیان داغنا چاہیے۔ مودی سرکار کو بھارتی میڈیا کے اس مشورے پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ چین کے ساتھ ہمالیائی سرحد پر چینی جوانوں کی موجودگی کا مسئلہ ہویا کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کراس فائرنگ کے واقعات‘ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ اپنی فوج کو بھرپور کارروائی پر اکسایا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو بگاڑنے میں ''ساؤتھ بلاک‘‘ کا نہیں بھارتی میڈیا کا زیادہ ہاتھ ہے ۔یہی رویہ تائیوان کے مسئلے پر ہے۔ نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان کا اعلان ہوا تو بھارتی میڈیا نے اسے چین کے خلاف امریکہ کی طرف سے طبلِ جنگ قرار دے دیا‘ حالانکہ نینسی پلوسی امریکہ کی پہلی ہاؤس سپیکر نہیں جنہوں نے تائیوان کا دورہ کیا ہو‘ مگر بھارتی میڈیا نے اسے چین اور تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں ایک نیا موڑ قرار دیا ۔ یہ سچ ہے کہ پلوسی کا دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا‘ جب چین کے خلاف امریکہ کی علاقائی عالمی حکمت عملی میں بھارت ایک اہم ستون کی حیثیت سے شامل ہے مگر نریندر مودی بہت زیرک اور دور اندیش سیاستدان ہیں۔ امریکہ کے قریب جانے کا واحد مقصد چین سے سرحدی تنازع میں زیادہ سے زیادہ رعایات حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ کوآڈ میں شامل ہو کر بھارت باب المندب (بحیرہ احمر) سے لے کر آبنائے ملا کا تک بحر ہند پر اپنی سیادت قائم کرنے کی دیرینہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہے‘ لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ امریکہ قابلِ اعتماد اتحادی نہیں‘ اس کے مقابلے میں چین چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے ساتھ بھارت کا ہمسایہ ملک ہے۔ کشیدہ تعلقات کے باوجود وزیر اعظم مودی کو معلوم ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک ہیں جنہوں نے ایک ساتھ رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے تائیوان پر ابھی تک کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے فریقین میں سے کسی ایک کی حمایت کا پہلو نکلتا ہو۔ البتہ بھارت اس بات پر خوش ہے کہ ''جمہوریت بمقابلہ آمریت‘‘ کے پیرائے میں امریکہ جس طرح تائیوان کو بھارت کے ساتھ جوڑ کر چین کے خلاف مشتہر کرتا ہے‘ اس سے بھارت کی عالمی ساکھ کو تقویت ملتی ہے‘ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کے برعکس تائیوان کے موجودہ بحران کے سیاسی اور سکیورٹی اثرات اس کے قرب و جوار کے علاوہ بہت دور تک علاقوں میں محسوس کئے جائیں گے۔
گزشتہ چند دنوں کے واقعات نے پورے بحرالکاہل اور بحر ہند کے علاقوں میں اضطراب اور عدم استحکام کی فضا قائم کر دی ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ کے بعد تائیوان کے بحران نے نہ صرف علاقائی سلامتی بلکہ عالمی معیشت کیلئے بھی نئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ چین کے سخت انتباہ کے باوجود نینسی پلوسی کے دورے نے چین اور امریکہ کے تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے دونوں ملک ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ پوری دنیا کو اس کے نقصان دہ اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کئی شعبے ایسے ہیں جن میں امریکہ اور چین کا تعاون نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے بلکہ اس سے پوری دنیا مستفید ہو سکتی ہے‘ مثلاً آب و ہوا کی تبدیلی کے مضر اثرات سے دنیا خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو محفوظ رکھنے میں امریکہ اور چین کے درمیان 2014ء سے ایک معاہدے کے تحت تعاون بہت مفید کردار ادا کر رہا تھا‘ لیکن تائیوان پر محاذ آرائی سے یہ سلسلہ منقطع ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس سے زمین پر زہریلی گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والی خطرناک کیفیت سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چین اور امریکہ کے درمیان ان گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے معاہدے کو اس لئے اہمیت حاصل ہے کہ یہ دو ممالک دنیا میں زہریلی گیسوں کے کل اخراج کے 40 فیصد حصے تک کے ذمہ دار ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان تعاون کا دنیا کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے‘ یہ اس کی صرف ایک ادنیٰ سی مثال ہے ورنہ دونوں ممالک میں امن اور تعاون پوری دنیا میں استحکام‘ ترقی اور خوشحالی کو بے تحاشا فروغ دے سکتا ہے‘ لیکن نینسی پلوسی کو تائیوان کا دورہ کروا کر بائیڈن انتظامیہ نے ایک ''غیر ضروری اشتعال انگیزی‘‘ کے ذریعے اس سارے عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
تائیوان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ چین نے لائیو اسلحہ کے ساتھ اپنی فوجی مشقوں کا سلسلہ وسیع کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں تائیوان نے بھی لائیو اسلحہ کے ساتھ فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے دونوں کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور اگر ایسی نوبت آئی تو امریکہ کیلئے دور تماشائی بن کر بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر اس کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ چھڑ گئی تو اس کی ساری ذمہ داری امریکہ پر ہو گی۔