عہدِ حاضر میں مشرقِ وسطیٰ سیاسی تبدیلیوں کا عجیب و غریب نقشہ پیش کر رہا ہے۔ ایک طرف ایران اور اس کے ہمسایہ خلیج فارس کے ممالک مثلاً قطر اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف امریکہ کے صدر جو بائیڈن خطے کا دورہ کر نے کے بعد‘ ایران کو مشرقِ وسطیٰ کے استحکام اور امریکی مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تاریخی دشمنی کی جگہ دوستی اور تعاون لے رہا ہے۔ پہلے صرف دو ہمسایہ عرب ممالک یعنی اردن اور مصر کے ساتھ اسرائیل کے باقاعدہ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم تھے‘ اب اس فہرست میں گزشتہ دو برس سے متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی شامل ہو چکے ہیں‘ بلکہ اسرائیل کی طرف سے شمالی افریقہ (المغرب) کے عرب ممالک مراکش اور تیونس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے اس نے اپنے انتہائی قریبی اتحادی ممالک یعنی متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح ابراہم معاہدات کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ سفارتی‘ ثقافتی اور تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے مگر ان تعلقات کے قیام میں ایک اہم سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثال صدر جوبائیڈن کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے دوران سعودی فضا کو اسرائیلی طیاروں کی پرواز کیلئے کھول دینے کا فیصلہ ہے۔
ان واقعات میں ایک اور اہم واقعے کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے ترکی اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد ترکی مشرقِ وسطیٰ میں واحد مسلم ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم تھے۔ اس کی وجہ سے ترکی اور عرب ممالک خصوصاً مصر کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار تھے۔ 1955ء میں معاہدۂ بغداد (بعد میں سینٹو) میں شمولیت اور 1956ء کے نہر سویز کے بحران میں ترکی کی طرف سے مصر پر اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس کے حملے کی حمایت نے ترکی کو عربوں سے اور بھی دور کر دیا تھا‘ مگر ترکی میں مغرب نواز ریپبلکن پارٹی کی جگہ اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کے اقتدار سنبھالنے سے اسرائیل کے بارے میں ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا۔ یہ عمل صدر اردوان کے دور میں تیز ہوا اور غزہ میں اسرائیلی فورسز نے جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام کیا‘ اس نے ترکی کو اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا‘ حتیٰ کہ صدر اردوان نے اسرائیل پر ایک نسل پرست ریاست ہونے کا الزام بھی عائد کر دیا؛ تاہم گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران مشرقِ وسطیٰ خصوصاً شام کے حالات نے ترکی اور اسرائیل کو ایک پیج پر لا کھڑا کیا۔
ترکی کے گردونواح میں واقع مشرقی بحیرہ روم کے پانیوں کے نیچے دریافت ہونے والے تیل اور گیس کے ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے یونان کی طرف سے جو کوشش کی جا رہی تھی‘ اس نے ترکی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کی متواتر مخاصمت اس کے مفاد میں نہیں۔ اس کے علاوہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے حق میں جو لہر چل رہی تھی‘ اس سے بھی ترکی میں اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اسرائیل تو ہمیشہ سے ترکی کے ساتھ نارمل تعلقات کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترکی مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کے ساتھ نارمل تعلقات کے ذریعے‘ اسرائیل کے دیگر مسلم ملکوں کے ساتھ تعلقات کا راستہ کھل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات سے اسرائیلی معیشت کو بہت فائدہ پہنچ رہا تھا اور سب سے اہم یہ کہ ترکی بحیرہ اسود سے بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے داخل ہونے کے راستے یعنی آبنائے باسفورس کو کنٹرول کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نتیجے میں شمال مغرب کی طرف سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ کم ہو جاتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ واقعات میں بلاشبہ ترکی اور اسرائیل کی جانب سے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان سب سے اہم واقعہ ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ترکی اور اسرائیل کے دو طرفہ تعلقات کو نمایاں فروغ حاصل ہو گا بلکہ اس کے اثرات خطے سے باہر خصوصاً جنوبی ایشیا میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔ ترکی کے اس فیصلے سے مسلم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات کا معاملہ زیر بحث آ سکتا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے اور اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے یا نہ کرنے پر بحث ہوتی رہی ہے۔ ترکی کے اس فیصلے سے بظاہر ان حلقوں کے موقف کو تقویت ملے گی جو اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات کو ملک کے مفاد کیلئے بہتر سمجھتے ہیں‘ لیکن مسلم ملکوں کیلئے اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا انتہائی ناروا‘ ظالمانہ اور بین الاقوامی قوانین کے منافی سلوک ہے۔ عالمی رائے عامہ کی طرف سے سخت مذمت کے باوجود اسرائیل کی طرف سے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل ان زمینوں سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے جو کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کی طرف سے قائم کردہ انڈیپنڈنٹ انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی یک طرفہ اور خلافِ قانون سرگرمیاں جاری ہیں۔ جن علاقوں میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی نقصان اٹھا رہے ہیں‘ ان میں مغربی کنارے کے علاوہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 242 (22 نومبر 1967ء) کے تحت اسرائیل ان تمام عرب علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا پابند ہے‘ جن پر اس نے جون 1967ء کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا‘ مگر اسرائیل نے اس قرارداد کے مطابق ان علاقوں سے ابھی تک فوجوں کو واپس نہیں بلایا اور یہ علاقے بدستور مقبوضہ ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان علاقوں میں آباد فلسطینی باشندوں کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں‘ جو بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے تحت مقبوضہ علاقوں میں رہنے والی آبادی کو حاصل ہوتے ہیں۔
فلسطین کے مسئلے کا تعلق صرف فلسطینیوں یا دیگر عرب ممالک سے نہیں بلکہ اسے پوری مسلم دنیا کا ایک اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کیلئے فلسطینیوں کے ساتھ کی جانے والے ناانصافیوں پر خاموش رہنا ممکن نہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے اور بیت المقدس کے مشرقی حصوں میں فلسطینی باشندوں سے زمینیں چھین کر اور انہیں گھروں سے بے دخل کرکے دراصل ایک علیحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی برادری‘ جس میں امریکہ اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں ''دو ریاستی فارمولے‘‘ پر مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ نہیں‘ جبکہ اپنے حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں پر اسرائیل گولیاں چلا کر بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان حالات میں ترکی اور اسرائیل کی طرف سے سفارتی تعلقات کی بحالی سے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون تو ضرور فروغ پائے گا مگر عالمِ اسلام میں اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات کے راستے میں رکاوٹ بدستور موجود رہے گی۔ یہ رکاوٹ صرف اس صورت دور ہو سکتی ہے جب اسرائیل فلسطین پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی قراردادوں اور سفارشات پر عمل کرے گا۔