ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی صورت حال بد سے بد تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ایسے ملک کیلئے جہاں سیاسی استحکام کو معاشی صحت کیلئے ناگزیر قرار دیا جا چکا ہے‘ آنے والے دنوں میں عوام کیلئے مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال میں اندرون اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری رکنے سے معیشت کا پہیہ جام ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے بین الاقومی مالیاتی ادارے اپنا ہاتھ روک سکتے ہیں جس سے روپے کی قدر مزید متاثر ہو گی‘ جس سے افراطِ زر اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی حالت کیا ہوگی‘ لیکن ایک دوسرے سے برسر پیکار سیاسی قوتیں حیران کن حد تک بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت‘ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک گیر سطح پر احتجاجی جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان احتجاجی جلسوں کا بظاہر مقصد شہباز گل اور میڈیا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بتایا جاتا ہے‘ مگر کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان یہ سب کچھ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے فال آؤٹ سے بچنے کیلئے کر رہے ہیں۔ آٹھ برس کی تفتیش کے بعد الیکشن نے پی ٹی آئی کو نہ صرف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا مرتکب قرار دیا ہے بلکہ پارٹی چیئرمین عمران خان پر اپنی جماعت کی آمدنی اور اخراجات کے بارے میں الیکشن کمیشن میں غلط حلفیہ بیان داخل کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ قانون سے واقف حلقوں کی رائے ہے کہ یہ سنگین الزامات ہیں۔ خان صاحب خود بھی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ان کو ایک سازش کے تحت نااہل کیا جا رہا ہے۔ یہی بیانیہ انہوں نے 21 اگست کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب دوران بھی دہرایا۔
راولپنڈی کے جلسے میں کی جانے والی تقریر نے سیاسی کشیدگی کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اس جلسے کو موجودہ حکومت کے خلاف ایک ایسی تحریک کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے جسے وہ 'حقیقی آزادی‘ کی تحریک کا نام دیتے ہیں اور ان کے اعلان کے مطابق 'صاف اور شفاف‘ انتخابات کے انعقاد تک یہ تحریک جاری رہے گی۔ اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات تک ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے گی۔ خان صاحب کے نزدیک اسے ختم کرنے کا واحد طریقہ صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔
موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت میں اس وقت ایک سال کا عرصہ باقی ہے۔ اس لیے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کوئی غیر معمولی یا تعجب خیز اقدام نہیں ہو گا۔ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے نئے انتخابات کو ناگزیر سمجھنے والے صرف عمران خان اور ان کی پارٹی ہی نہیں‘ ملک کا سنجیدہ طبقہ بھی نئے انتخابات کو موجودہ سیاسی محاذ آرائی کو ختم کرنے کیلئے واحد آپشن سمجھتا ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا شرو ع سے ہی مطالبہ رہا ہے کہ کسی مداخلت کے بغیر آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی پی ڈی ایم اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرنے والی تھی لیکن پھر عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ موخر کر دیا کیونکہ وہ عمران خان کے الٹی میٹم کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کرکے وہ ایک کمزور حکومت کا تاثر نہیں دینا چاہتی تھی۔
سرِدست حکومت کا موقف یہ ہے کہ انتخابات اسمبلیوں کی موجودہ مدت پوری کرنے کے بعد ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی موجودہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے کیا سیاسی نتائج نکلتے ہیں اور خان صاحب اس حکومت کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں‘ ان سب باتوں سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکومت آئینی اور قانونی طریقے سے معرض وجود میںآئی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی باقی ماندہ مدت پوری ہونے تک یہ حکومت آئین اور قانون کی نظر میں ایک جائز اورتمام اختیارات‘ جن میں اندرونی اور بیرونی معاملات بھی شامل ہیں‘ کے استعمال کا استحقاق رکھتی ہے۔ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے قبل انتخابات کا انعقاد بھی ان حقوق میں شامل ہے اور اگر عمران خان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے یہ حکومت فوری طور پر انتخابات کا اعلان نہیں کرتی تو اس کا یہ فیصلہ کسی طور آئین اور قانون کے خلاف نہیں۔ دوسری طرف عمران خان کو انتخابات کی جلدی ہے اور اس کی وجہ سمجھ آتی ہے‘ جیسا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں خدشے کا اظہار کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مخالفین آئندہ انتخابات تک پی ٹی آئی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں پی ڈی ایم کی کامیابی کا راستہ ہموار ہو سکے‘ اور بقول ان کے اس کیلئے الیکشن کمیشن کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس نے 8 سال کی تفتیش کے بعد 2 اگست کو پی آئی ٹی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایک ایسا فیصلہ سنایا‘ جس میں خان صاحب بعض سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں کا اگر خان صاحب اعلیٰ عدالتوں میں جواز نہ پیش کر سکے تو مروجہ آئینی اور قانونی ضابطوں کے تحت وہ سیاست میں حصہ لینے سے نااہل بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ نااہلی کی اس لٹکتی ہوئی تلوار کو ہی وہ اپنے خلاف سازش کا نام دیتے ہیں۔
اگرچہ اس وقت وہ یہ بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فیصلہ ان کے خلاف سازش کا حصہ ہے جس کے تحت پہلے اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں قتدار سے الگ کیا گیا اور اب اس فیصلے میں بیان کی گئی خلاف ورزیوں پر ان سے باز پرس کی جا رہی ہے‘ تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کیس کا آغاز آج سے 8سال پہلے ہوا تھا‘ جب خان صاحب کی حکومت کا دور دور تک امکان نظر نہ آتا تھا۔ یہ کیس اُس وقت کی کسی حکومت کی شکایت پر دائر نہیں کیا گیا تھا بلکہ شکایت کرنے والا پی ٹی آئی کا بانی رکن اور خان صاحب کا قریبی ساتھی تھا۔ اس کیس کی تفتیش ادارے کے تین مختلف سربراہوں کے ادوار میں ہوئی اور کمیشن کے موجودہ سربراہ کی دیانت اور غیر جانبداری کے خود خان صاحب بھی معترف رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اکیلے چیف الیکشن کمشنر کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے تین ممبران کا متفقہ فیصلہ ہے اور اس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اور فریقین کی رضا مندی سے قائم ہونے والی ایک سکروٹنی کمیٹی کا اِن پٹ بھی شامل ہے۔ گزشتہ آٹھ برس کی تفتیش کے دوران نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ فریقین میں سے کسی نے حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت کی شکایت کی۔ دوسری طرف عوام اس بات سے بھی پوری طرح واقف ہوں گے کہ اس دوران خان صاحب اور ان کی پارٹی نے کمیشن کی کارروائی کو کن کن بہانوں سے موخر کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان کی طرف سے حقیقی آزادی کے نام سے موجودہ حکومت کو قومی اسمبلی توڑ کر فوری طور پر نئے انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کیلئے جس تحریک کا آغاز کیا گیا ہے‘ وہ دراصل الیکشن کمیشن کی طرف سے عائد کردہ الزامات سے بچنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں کوئی دباؤ قبول نہیں کرے گی بلکہ الیکشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں قانونی کارروائیوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ خان صاحب کی تحریک برائے 'حقیقی آزادی‘ کے تحت جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا؛ تاہم آنے والے دنوں میں اُن کے خلاف آئین اور قانون کے تحت ہونے والے اقدامات اور نتائج قومی سیاست کا اصل محور بن سکتے ہیں۔