قومی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کو درپیش خطرات کے بارے میں اب پوری قوم میں یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ ان میں بیرونی کے مقابلے میں اندرونی محرکات زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ گزشتہ ایک سال خصوصاً اس سال ستمبر کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ‘ اس کے پیش نظر اب ہنگامی بنیادوں پر مؤثر اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں کیونکہ دہشت گردی کا عفریت ایک دفعہ پھر خطرناک انداز میں سر اٹھا رہا ہے ۔ بلوچستان میں قیام امن اور شورش کے خاتمے کی کوششوں کے باوجود جنگجو تنظیموں کی جانب سے دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تو دہشت گردی اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ خونریز جھڑپوں کاسلسلہ صوبے سے باہر دیگر علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ کراچی میں ہونے والے خود کش حملے اس کا ثبوت ہیں۔ اس کے ساتھ ملک کے شمال مغربی علاقوں یعنی سابقہ فاٹا اور سوات میں دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کے حامی اور امن کیلئے کوشاں افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مختلف ریسرچ اداروں کی طرف سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار اور میڈیا سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق پچھلا مہینہ یعنی ستمبر سال کا سب سے زیادہ خونریز مہینہ ثابت ہوا۔ اس ماہ کے دوران دہشت گردوں کی طرف سے 42 حملے کئے گئے جو اگست کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ تھے۔ دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات سابقہ فاٹا کے علاقے میں ہوئے اور ان کے پیچھے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے ان وارداتوں کا خود اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات کا مقصد حکومت پاکستان پر اپنے مطالبات منوانے کیلئے دباؤ ڈالنا تھا۔ ان مطالبات میں کالعدم تنظیم کے اپنے بیانات کے مطابق سب سے اہم اور بنیادی سابقہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے فیصلے کو ختم کرکے اس کی سابقہ حیثیت بحال کرنا ہے۔
اس مطالبے کے پیچھے ٹی ٹی پی کے جو عزائم ہیں‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سابقہ فاٹا کو پہلے کی طرح اپنے مکمل کنٹرول میں لا کر اسے ملک کے دوسرے حصوں خصوصاً صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی ہم خیال تنظیموں اور عناصر کی اعانت کیلئے اڈے میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس لحاظ سے ٹی ٹی پی کی حالیہ دہشت گردی پاکستان کی سالمیت پر براہ راست حملہ ہے اور جیسا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں واضح کیا ہے‘ اس کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال سوات میں پیدا ہو رہی ہے۔ یہ علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا کا 1955ء سے باقاعدہ حصہ چلا آ رہا ہے اس لیے یہاں صوبائی حکومت کی رِٹ زیادہ واضح اور مؤثر نظر آنی چاہیے لیکن تازہ ترین واقعات‘ جن میں ایک سکول وین پر حملہ بھی شامل ہے‘ ثابت کرتے ہیں کہ کسی صوبائی حکومت نے سوات میں دہشت گردی کا مقابلہ کرکے مستقل امن کے قیام کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تازہ ترین واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سوات ایک دفعہ پھر 2009ء کی صورتحال کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس لیے سابقہ ریاست کے عوام کی پریشانی اور تشویش قابلِ فہم ہے جو گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردوں اور ان کے حملوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں۔ ان جلوسوں میں جہاں دہشت گردوں اوران کے حملوں کی مذمت کی جاتی ہے وہاں علاقے میں موجود سکیورٹی فورسز کی طرف سے بروقت اور مؤثر کارروائی کے فقدان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان میں ایک سینئر صوبائی وزیر اور ان کے ساتھ درجنوں مسافروں اور سیاحوں کو تین دن تک روڈ بلاک کرکے روکنے کے واقعہ نے جغرافیائی طور پر ایک انتہائی اہم محل وقوع کے حامل علاقے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کو واضح کر دیا ہے۔ جیسا کہ موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہے‘ سینئر صوبائی وزیر اور ان کے ساتھیوں کی رہائی ''بات چیت‘‘ کے بعد عمل میں آئی۔ اس ''بات چیت‘‘ میں کیا طے ہوا؟ دہشت گردوں نے کون سے مطالبات پیش کیے اور حکومت نے کن مطالبات کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں‘ البتہ اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں نے اپنے مطالبات‘ جن میں نانگا پربت کے علاقے میں 10 غیر ملکی سیاحوں کے قتل میں ملوث اور جیلوں میں بند ساتھی دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل ہے‘ جس پر عمل درآمد کیلئے 10 دن کا الٹی میٹم دیا ۔
بلوچستان ہو یا سندھ‘ سابقہ فاٹا ہو یا گلگت بلتستان‘ ہر جگہ دہشت گردی کے مسئلے کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے پاکستان کے ایسے علاقوں کو چنا ہے جو ملک کی سکیورٹی‘ علاقائی سلامتی اور معیشت کیلئے نہایت اہم ہیں۔ بلوچستان میں سی پیک کے ذریعے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ترقی کیلئے جن منصوبوں پر آغاز ہوا ہے‘ دہشت گرد انہیں ناکام بنانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کیلئے جغرافیائی طور اس اہم ترین صوبے کو ملک سے علیحدہ کیا جائے۔ پاکستان کا شمال مغربی خطہ‘ دہشت گردوں کی کارروائیوں کی اس لیے آماجگاہ بنا ہوا ہے کہ اس پر قبضہ کرکے ٹی ٹی پی القاعدہ جیسی اپنی ساتھی دہشت گرد تنظیموں کیلئے وسطی ایشیا سے پاکستان کے ان علاقوں کے ذریعے دنیا کے باقی علاقوں‘ جن میں خلیج فارس‘ مشرق وسطیٰ‘ افریقہ بلکہ اس سے آگے مغرب میں یورپ اور مشرق میں جنوب مشرقی ایشیا تک کے علاقے شامل ہیں‘ میں بلا روک ٹوک دہشت گردی کی کارروائیوں کا راستہ ہموار کرنا چاہتی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیاں سوات‘ سابقہ فاٹا میں ہوں یا گلگت بلتستان میں‘ ان سب کا تعلق بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ قائم ہے کیونکہ ان عناصر کے اصل عزائم وسطی ایشیا سے پاکستان کے راستے بحیرہ عرب اور بحر ہند تک رسائی حاصل کرنا ہے تاکہ اپنی کارروائیوں کا جال پوری دنیا میں پھیلا سکیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی بین الاقوامی قوتیں دہشت گردوں کے ان عزائم سے واقف ہیں اور انہیں ناکام بنانے کیلئے مختلف اقدامات پر بھی عمل پیرا ہیں لیکن پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال‘ معاشی مشکلات اور دہشت گردی کے مسئلے پر سیاسی جماعتوں اور گروپوں میں اتفاق رائے کے فقدان جیسی رکاوٹیں سامنے آ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف ملٹری آپریشن کے باوجود اس لعنت کا مکمل طور پر قلع قمع نہیں کیا جا سکا۔ ہماری فوج‘ پولیس اور دیگر فورسز کے بہادر جوانوں اور آفیسرز کی شہادتوں کے باوجود دہشت گرد ملک میں کیوں دندناتے پھرتے ہیں؟ جہاں چاہتے ہیں‘ جب چاہتے ہیں حملہ کرنے میں آزاد ہیں۔ کیوں؟ بڑی تعداد میں فورسزکی تعیناتی کے باوجود انیشی ایٹو آخر کیوں اب تک دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہے؟ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار قیمتی جانیں قربان کیں‘ اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھایا لیکن ہم نے دہشت گردی کے خلاف جو کچھ کیا بین الاقوامی برادری اسے ناکافی قرار دے کر ہم سے مزید کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔جیسا کہ سوات میں دہشت گردی کے خلاف عام لوگوں کے احتجاجی مظاہروں میں بلند کی جانے والی آوازوں سے ظاہر ہے‘عوام کا اعتمادمتاثر ہو رہا ہے۔ ملکی قیادت کیلئے یہ ایک wake up کال ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو چکا ہے‘ سوات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور گلگت بلتستان میں جو کچھ ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں‘ ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ پانی سر سے گزرنے والا ہے۔ ابھی وقت ہے‘ اس میں پوری یکجہتی اور عزم کے ساتھ اس عفریت پر قابو پا لیں ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔