1933ء کے معاہدے کے باوجود سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ایسے مسائل موجود تھے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل تھی۔ ان میں سر فہرست مسئلہ فلسطین تھا جس کا آغاز نومبر 1917ء میں اگرچہ اس وقت ہوا جب فلسطین کا علاقہ لیگ آف نیشنز کے تحت برطانیہ کے کنٹرول میں تھا مگر اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب 1947ء میں امریکہ نے اقوام متحدہ میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے فلسطین کو دو ریاستوں فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کروا لی۔ تمام عرب ممالک نے یہ فیصلہ مسترد کر دیا اور جب اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد کے تحت 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تو عربوں اور نئی یہودی ریاست اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ (1948-49ء) چھڑ گئی جس میں عرب افواج کو شکست ہوئی اور اسرائیل کی فوجوں نے اقوامِ متحدہ کی سکیم میں یہودی ریاست کے لیے تفویض کیے گئے علاقوں کے علاوہ چند دیگر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا جو مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ تھے۔ اس جنگ میں اگرچہ براہِ راست نئی یہودی ریاست اسرائیل کے خلاف فرنٹ لائن عرب سٹیٹس مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان کی فوجوں نے حصہ لیا لیکن بالواسطہ طور پر تمام عرب اور مسلم ممالک کی حمایت اور مدد عرب فوجوں کو حاصل تھی۔ عربوں نے اپنی شکست کا ذمہ دار ایک طرف امریکہ‘ جس نے اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار اور فوجی تربیت فراہم کی تھی‘ اور دوسری طرف عرب ممالک میں مطلق العنان اور کرپٹ شاہی نظام کو ٹھہرایا جو اپنی نااہلیت اور کمزوری کے باعث عرب افواج کو صحیح قیادت اور مطلوبہ وسائل مہیا نہ کر سکے۔
اس جنگ میں عربوں کی شکست سے مشرقِ وسطیٰ میں دو اہم رجحانات پیدا ہوئے۔ امریکہ کے خلاف نفرت اور دشاہی نظام کی مخالفت۔ اگرچہ مسئلہ فلسطین کی بنیاد برطانیہ نے 1917ء میں بالفور ڈیکلریشن جاری کرکے رکھی تھی لیکن اسرائیل کے قیام کے بعد عربوں کی ساری مخالفت اور نفرت امریکہ کی طرف مڑ گئی کیونکہ امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کے قیام میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا تھا بلکہ بھاری مقدار میں جدید ترین اسلحہ اور خطیر مالی امداد فراہم کرکے اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھا۔ دوسری طرف عرب قوم پرستی کی لہر نے پورے عالمِ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی زد میں آ کر کئی بادشاہتیں ملیا میٹ ہو گئیں۔ ان میں مصر کے شاہ فاروق بھی شامل تھے جن کی حکومت کا مصری فوج کے نوجوان افسروں نے 1952ء میں تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ان نوجوان افسروں میں ایک کرنل جمال عبدالناصر بھی تھے‘ جو بالآخر مصر کی ملٹری حکومت کے سربراہ بن کر ابھرے۔ صدر ناصر عرب قوم پرستی کے علم بردار اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے خلاف تھے۔ انہوں نے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرکے اپنی فوجوں کیلئے ہتھیار حاصل کیے۔ 1955ء میں جب ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ورلڈ بینک نے اسوان ڈیم کی تعمیر کیلئے مالی امداد دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے (جولائی 1956ء) نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کر دیا۔
نہر سویز نہ صرف یورپ بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے مشرق میں واقع یورپی ممالک کی سابق نوآبادیات یعنی جنوبی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کے درمیان مختصر ترین بحری راستہ فراہم کرتی تھی بلکہ ان تمام خطوں کے دفاع اور سکیورٹی کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لیے مصر کا یہ اقدم برطانیہ اور فرانس‘ جو نہر سویز کو کنٹرول کرتے تھے‘ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ اکتوبر‘ نومبر 1956ء میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کے لیے مصر پر حملہ کر دیا مگر سوویت یونین کی طرف سے الٹی میٹم کے بعد مصری علاقوں کو خالی کرنے پرمجبور ہو گئے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیاں مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لیے بہت مشکل کا زمانہ تھیں۔ جمال عبدالناصر نہر سویز کے بحران میں کامیابی کے بعد پوری عرب دنیا کے ہیرو بن چکے تھے اور خطے میں جو ممالک امریکی نواز سمجھے جاتے تھے‘ غیر مستحکم ہو رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں سوویت یونین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا مگر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان دوستی برقرار رہی اور 1933ء کے معاہدے کے تحت اس کی طرف سے نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ میں اس کے اتحادی ممالک اور جاپان کو اس کے تیل کی سستے داموں سپلائی جاری رہی۔ انتہائی کم قیمت پر اور بغیر کسی تعطل کے مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس خصوصاً سعودی عرب کی طرف سے تیل کی اس سپلائی نے دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہونے والی ان قوموں کو نہ صرف دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا بلکہ 10 سے 14 فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر دیا لیکن 1967ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ خطے کی سیاست اور سعودی عرب امریکہ تعلقات کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں عربوں کی شکست کو دراصل عرب قوم پرستی کی شکست سمجھا گیا اور عربوں کو یقین ہو گیا کہ امریکہ کی پشت پناہی حاصل کرنے والی یہودی ریاست کی جارحیت کا قوم پرستی کے تنگ نظریے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس چیلنج کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے بیانیے اور نئی قیادت کی ضرورت تھی جسے پیش کرنے کیلئے سعودی عرب کے شاہ فیصل موجود تھے۔ ان کا پہلا کارنامہ 1969ء میں اسلامی ممالک کی تنظیم برائے تعاون او آئی سی کا قیام تھا۔ اس کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے اور مقبوضہ عرب علاقوں بشمول بیت المقدس کو صہیونی قبضے سے چھڑانے کیلئے عرب لیگ کے ساتھ مسلمان ممالک کی ایک اور عرب لیگ سے بڑی تنظیم معرض وجود میں آئی۔ مسئلہ فلسطین اب صرف عربوں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری امتِ اسلامیہ کا تھا جسے اٹھانے اور اس کا حل تلاش کرنے کیلئے سب سے زیادہ مؤثر آواز او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بلند کی جا رہی تھی۔ 1974ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی ملکوں کی دوسری سربراہی کانفرنس اس کا بین ثبوت ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل نے کلیدی کردار ادا کیا تھا‘ مگر شاہ فیصل کا سب سے عظیم اور ہمیشہ یاد رہنے والا کارنامہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ (1973ء) کے آخری ایام میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی طرف سے جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنے کے جواب میں پٹرولیم کی سپلائی پر پابندی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ پٹرولیم کی سپلائی بند ہونے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یورپی شہروں میں زلزلہ آ گیا ہو یا کوئی بھوت پھر گیا ہو۔ کارخانے‘ ملیں‘ جہاز‘ گاڑیاں‘ ریلوے جہاں تھیں وہیں رک گئیں بلکہ زندگی کے رونقیں جام ہو گئیں اور لوگوں پر سکتہ طاری ہو گیا کیونکہ توانائی کا واحد ذریعہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس سے درآمد ہونے والا پٹرولیم تھا۔ مغرب کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ ان کی دولت مندی کسی حد تک مشرقِ وسطیٰ سے درآمد کرنے والے تیل پر ہے۔ اگرچہ یورپ کے مقابلے میں امریکہ تیل کی اس پابندی (Oil Embargo) سے کم متاثر ہوا کیونکہ اس کے پاس تیل کے اپنے وسیع ذخائر ہیں جنہیں آج کل یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی طرح وہ ہنگامی حالت میں استعمال کر سکتا ہے لیکن یورپ میں معیشت کا پہیہ جام ہونے سے نیٹو ممالک‘ جن میں امریکہ بھی شامل ہے‘ کا دفاع متاثر ہو سکتا تھا‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 1974ء کے آئل ایمبارگو نے امریکہ کی عالمی سیادت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں‘ کیونکہ امریکہ کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کے علاوہ اس کا انحصار یورپ میں اس کے اتحادی ممالک اور جاپان کی مضبوطی پر بھی ہے۔ ایک طاقتور جاپان اور خوشحال یورپ امریکی عالمی سیادت کے دو اہم ستون ہیں۔ (جاری)