سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ‘ جسے وہ ''حقیقی آزادی لانگ مارچ‘‘ کا نام دیتے ہیں‘ کے آخری مرحلے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے تحت انہوں نے عوام کو 26 نومبر کو راولپنڈی میں جمع ہونے کی ہدایت کی ہے۔ اگرچہ شیخ رشید کے مطابق ڈاکٹروں نے عمران خان کو اُن کے زخموں کے پیش نظر سفر سے منع کیا ہے مگر سابق وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے زخموں کے باوجود مارچ میں شرکت اور اس کی رہنمائی کریں گے۔ 3نومبر کو وزیر آباد میں ان کے کنٹینر پر حملے‘ جس میں ایک شخص جاں بحق اور عمران خان کے ساتھ متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے‘ کے بعد سابق وزیراعظم لاہور آ گئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی غیر موجودگی میں لانگ مارچ کو جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی مگر عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شرکا کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی رہی۔ عمران خان کی غیر حاضری میں پی ٹی آئی کی دوسری سطح کی قیادت مارچ کے حجم اور اس کی رفتار کو برقرار رکھنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ شرکا کی تعداد میں کمی کو پورا کرنے کے لیے پارٹی کے چیئرمین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں اور روڈ بلاکس کا حکم جاری کیا تھا۔ نگرانی کے باوجود مارچ کے حجم میں اضافہ نہ ہو سکا اور اس کی رفتار اور لوگوں کی شرکت کا Pattern وہی رہا جو اس کا لاہور سے روانگی کے وقت تھا اور نظر آ رہا تھا کہ وزیر آباد سے روانہ ہو کر راولپنڈی پہنچنے تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس میں جان ڈالنے کے لیے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کو مارچ کے آخری پڑاؤ کے طور پر چنا گیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے قریبی حلقے یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ راولپنڈی مارچ کا ایک پڑاؤ تو ہو سکتا ہے مگر آخری منزل نہیں اور اگر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے صاف شفاف انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو اس مقصد کے لیے مارچ کے شرکا اسلام آباد میں داخل ہو جائیں گے۔
میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں اس سوال پر قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اگر لانگ مارچ کا اصل مقصد انتخابات کی تاریخ حاصل کرنا ہے تو اس کا ٹرمینل اسلام آباد ہونا چاہیے تاکہ وفاقی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس کے لیے راولپنڈی کو بطور پڑاؤ کیوں چنا گیا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں ہے‘ اس کے لیے صرف خان صاحب کے گزشتہ سات ماہ کے دوران حکومت کے ساتھ بات چیت کی تجویز پر بیانات کا جائزہ لینا کافی ہے۔ ان بیانات میں خان صاحب نے تواتر کے ساتھ جو بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی تو کوئی وقعت نہیں۔ اصل اختیارات اور فیصلہ کرنے کی قوت تو کسی اور کے پاس ہے۔ خان صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ ان کا مطالبہ ان سے ہے جو اس حکومت کو لائے ہیں۔اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے اگرچہ اب مقتدرہ کو اس الزام سے بری الزمہ قرار دیا ہے مگر ابھی تک وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مقتدرہ اگر چاہے تو حکومت پر انتخابات کے جلد انعقاد کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ پچھلے کچھ روز میں چند ایک ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے اس رائے کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ عمران خان کو انتخابات سے زیادہ دلچسپی مقتدرہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی بحالی میں ہے کیونکہ شاید کسی نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ ان تعلقات کی بحالی کے بغیر مقبولیت بھی انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیں ثابت ہو سکتی۔ اس لیے اگر اگلے انتخابات میں کامیاب ہو کر دوبارہ برسر اقتدار آنا ہے تو جہاں ایک طرف امریکہ مخالف ہونے کے تاثر کو دور کرنا ضروری ہے وہاں مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کو سنوارنا بھی لازمی ہے۔ عمران خان نے یہ کہہ کر کہ سائفر اور بیرونی سازش کہانی قصہ پارینہ بن چکی ہے‘ امریکہ کی ناراضی دور کرنے اور مقتدرہ کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس بات پر یقین کرنے پر آمادہ ہیں کہ اقتدار سے ان کی علیحدگی میں اُن کا کوئی ہاتھ نہیں تھا‘ مگر شکوہ ہے کہ جب آئین میں درج طریقے کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپوزیشن ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی تھی تو مقتدرہ پہلے کی طرح ان کی مدد کو کیوں نہیں پہنچی؟ یا دیگر الفاظ میں ایک قانونی اور آئینی طریقے کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟
پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ عمران خان کی طرف سے اس وضاحت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اقتدار سے علیحدگی کی سازش میں مقتدرہ کو شریک نہیں سمجھتے۔ یہ بیانات عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے اور بہتر تعلقات قائم کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ خان صاحب کو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ اس کی وجہ شاید توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ مقدمات میں ان کے سر پر نااہلی کی لٹکتی ہوئی تلوار ہے۔ اس لیے شاید وہ سوشل میڈیا پر اور عام جلسوں اور جلوسوں میں جارحانہ بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ محض جلسوں اور جلوسوں سے کسی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے طاقتوروں کی طرف سے اشارہ ضروری ہے۔
تحریک عدم اعتماد لانے سے قبل اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) کا بھی یہی مؤقف تھا۔ پاکستان کی سیاست کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ راولپنڈی میں لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کرکے عمران خان وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھا کرکے ایک دفعہ پھر ایک بڑا شو آف پاور کرنا چاہتے ہیں اور اس کا مقصد طاقتوروں کو یہ باور کرانا ہے کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو عوام کی بہت بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے‘ اور اسے دیوار کے ساتھ لگا کر نہ تو ملک میں سیاسی فضا کو مستحکم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قومی معیشت‘ جو کہ ملک کو درپیش چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے‘ کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کسی حل کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے شو آف پاور کرکے اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ موجودہ حکومت کو ''غیر قانونی اور امپورٹڈ‘‘ سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی قیمت پر ہاتھ ملانے پر تیار نہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ 26 نومبر کے بعد حالات عمران خان کی خواہش اور ان کی حکمت عملی کے مطابق رخ اختیار کریں۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب اور کے پی سے آنے والے لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ مسلح افراد بھی ہو سکتے ہیں‘ اگر خان صاحب کے مطالبات پر پیش قدمی نہ ہوئی اور لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا تو تصادم کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس نے اس خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار بھی کیا ہے کیونکہ وفاقی حکومت لانگ ماچ کے شرکا کو راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکے گی۔ دعا ہے کہ ایسی نوبت نہ آئے اور فریقین موجودہ بحران کو آئین اور قانون کی روشنی میں حل کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔