26 نومبر کو راولپنڈی کے جلسۂ عام میں اسمبلیوں سے نکل جانے کے ارادے کا اعلان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ذہن میں ایک لمحے کیلئے بھی خیال نہیں آیا ہو گا کہ اس علان پر عمل کے راستے میں کوئی ہلکی سی بھی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان کی یہ توقع بلا جواز نہیں ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے وزیر اعلیٰ ان کے حکم پر عملدرآمد میں دیر نہیں کریں گے اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں میں پی ٹی آئی ارکان بھی اپنی سیٹوں کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر چھوڑ دیں گے۔ ان کی ایک کال پر ہزاروں لوگ جلسوں میں شریک ہونے کو تیار بیٹھے ہوتے تھے اور ضمنی انتخابات خواہ وہ پنجاب میں تھے یا کراچی میں‘ پی ٹی آئی کے حق میں ووٹرز کے فیصلے سے جو تاثر پیدا ہوا وہ یہ ہے کہ عمران خان کی کال پر ان کے حامی‘ خواہ وہ ووٹرز ہوں یا اسمبلیوں کے اراکین‘ ایک جیسے ردعمل کا اظہار کریں گے‘ لیکن عملی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔اسمبلی کی رکنیت میں طاقت (Power) کا عنصر شامل ہے جسے اراکین اسمبلی نے بڑی تگ و دو اور وسائل خرچ کرکے حاصل کیا ہوتا ہے‘ اور اس سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
عمران خان کو 26 نومبر کے اعلان کے بعد اسمبلیوں کی تحلیل اور اراکین کے استعفوں کے مسئلے پر یہی رکاوٹ درپیش ہے۔ سابق وزیر اعظم نے سمجھا کہ جس طرح عام لوگوں پر مشتمل ان کے چاہنے والے ان کی کال پر اور شارٹ نوٹس پر جوق در جوق جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اسی طرح ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بھی ان کے اشارے کے منتظر اور فوری عمل کرنے پر تیار ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے اس زعم کی بنیاد ان کا یہ موقف ہے کہ اراکین اسمبلی کی کامیابی پی ٹی آئی کی ٹکٹ کی مرہونِ منت ہے‘ لیکن عمران خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری معاشرے میں لیڈر اور کارکن سیاسی طور پر برابر ہوتے ہیں۔ عمران خان جو کچھ چاہتے ہیں۔ پاکستان میں‘ جہاں ایک پارلیمانی جمہوری آئین نافذ ہے اور جس کے تحفظ کیلئے ایک آزاد عدلیہ موجود ہے‘ یہ ممکن نہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم فیصلہ پہلے کرتے ہیں اور مشاورت بعد میں اور ماضی میں جب بھی انہوں نے ایسا کیا ہے انہیں اپنے ہی کارکنوں کی طرف سے مزاحمت یا تحفظات کا سامنا کرنا پڑا۔اپریل میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی کو فوری طور پر مستعفی ہونے کی ہدایت کی لیکن مبینہ طور پر اراکین کی دو درجن بھر تعداد نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ ان منحرفین کے علاوہ مزید ارکان نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اس پر عمران خان کو اعلان کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی ان کی ہدایت پر مستعفی نہ ہوئے تو وہ اکیلے ہی قومی اسمبلی میں اپنی نشست چھوڑ دیں گے۔ ان کی دھمکی کام کر گئی مگر کہا جاتا ہے کہ بعد میں متعدد مواقع پر اپنے لیڈر کے اس فیصلے پر پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نجی طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ خود صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک موقع پر کہا کہ اگر عمران خان ان کی رائے لیتے تو وہ انہیں قومی اسمبلی سے نکل جانے کا کبھی نہ کہتے۔
دراصل سیاسی پارٹیوں کے لیے انتخابات کی وہی اہمیت ہے جو مچھلی کیلئے پانی کی۔ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی‘ اسی طرح انتخابات کے بغیر سیاسی پارٹیاں پنپ نہیں سکتیں۔ پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں جب بھی کسی پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ان کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا‘ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات بذاتِ خود منزل نہیں ہوتے‘ بلکہ منزل حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور منزل اقتدار ہے‘ اس لئے انتخابات خواہ وہ وفاقی‘ صوبائی یا مقامی سطح کے ہوں ہر پارٹی کے لیے بڑی ہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان کے ذریعے ہر سیاسی پارٹی اپنی منزل مقصود‘ یعنی اقتدار کے حصول‘ پر پہنچتی ہے۔
عمران خان بھی اسی لیے فوری انتخابات کے مطالبے پر مُصر ہیں کیونکہ سات ماہ قبل کھوئے ہوئے اقتدار کو وہ عام انتخابات کے بعد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کے سامنے حکومت دیوار بن کر کھڑی ہے اور آئین کے تحت اسے قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کی تکمیل (اگلے سال اگست) تک اقتدار میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس لیے اگر وہ عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو مسترد کرتی ہے تو سیاسی طور پر یہ موقف ان کے لیے اچھے یا برے نتائج کا حامل ہو سکتا ہے‘ مگر آئینی اور قانونی طور پر حکومت کے مؤقف کو ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان نے کوشش کی کہ سیاسی حقیقت میں تبدیلی لا کر وہ حکومت کی اس آئینی اور قانونی ڈھال کو بے اثر بنا کر فوری انتخابات پر مجبور کر دیں‘ اس کے لیے انہوں نے جلسے‘ جلوسوں اور دو دفعہ لانگ مارچ کا سہارا لیا مگر ناکام رہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑ کر وفاقی حکومت پر فوری انتخابات کیلئے دباؤ ڈالنا ان کا نیا حربہ ہے جسے بہت سے مبصرین ان کی بہترین اور سب سے مؤثر چال قرار دے رہے ہیں مگر یہاں بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کا مؤقف اہم اور واضح تضادات کا شکار ہے۔ مثلاًاسمبلیوں سے الگ ہونے کے اعلان کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مقصد موجودہ کرپٹ نظام سے نجات حاصل کرنا ہے‘ لیکن اس نظام کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز صدر عارف علوی کے استعفے کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ جس نظام کو کرپٹ قرار دے کر اس سے باہر نکلنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ پی ٹی آئی نئے انتخابات کے ذریعے (پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ) واپس اسی نظام میں داخل ہونا چاہتی ہے۔ کیا اس سے یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے نزدیک وہی نظام صاف‘ شفاف اور کرپشن سے آزاد ہے جس میں انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہو۔ لیکن پاکستان کے معروضی سماجی‘ لسانی‘ ثقافتی اور معاشی حقائق ایسے ہیں کہ ان کی موجودگی میں کسی پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً موجودہ حالات میں جبکہ معاشرہ سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر گہری تقسیم کا شکار ہو چکا ہے‘ دو تہائی اکثریت کے حصول نہ صرف مشکل ہے بلکہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ عمران خان آئندہ انتخابات دو تہائی اکثریت کے ساتھ جیت کر پاکستان کے موجودہ وفاقی اور پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے مراد اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو قانون سازی اور مالیات کے شعبوں میں حاصل ہونے والی غیر معمولی رعایات کے رول بیک کے علاوہ پارلیمنٹ کے اختیارت کو دوبارہ سربراہ مملکت کو منتقل کرنا ہے‘ مگر بھارت کی طرح پاکستان کے وفاقی اور پارلیمانی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اسے تمام سیاسی پارٹیو ں‘ جن میں مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں‘ کی متفقہ حمایت حاصل ہے اور چھوٹے صوبے تو اس قسم کی آئینی اور سیاسی تبدیلیوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اگر اس جانب کوئی قدم اٹھایا گیا تو قومی اتحاد اور ملک کی سالمیت کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔سابق وزیر اعظم بھی اس قسم کی سکیم کے نقصان دہ مضمرات سے آگاہ ہیں‘ اسی لیے وہ کھل کر اپنے عزائم کا اعلان نہیں کر رہے۔ انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا اتنا آسان کام نہیںاور اگر وہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں میں اپنی پارٹی کے ارکان کے استعفے حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو عام انتخابات کی منزل سے پھر بھی وہ دور رہیں گے کیونکہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں برقرار رہیں گی اور وفاقی حکومت فوری انتخابات کے لیے دباؤ کی مزاحمت کرے گی۔