دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے اب تک امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ‘ جس میں شمالی افریقہ کے عرب ممالک‘ بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ترکی سے فلسطین تک کا خطہ اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں شامل ہیں‘ پر تقریباً مکمل بالا دستی حاصل رہی ہے۔ البتہ اس دوران اسے اس خطے میں اپنی سیاسی‘ معاشی اور عسکری بالا دستی کے خلاف متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ چیلنجز اندرونی بھی تھے اور بیرونی بھی۔ اندرونی چیلنجز میں انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے اور 1960ء کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچنے والی عرب قوم پرستی کی تحریک تھی۔ مصر کے صدر جمال عبد الناصر اس تحریک کے ہیرو تھے‘ جن کے جادو نے عراق (1958ء) اور یمن (1962ء) میں مغرب نواز حکومتوں کو ختم کیا اور باقی عرب ملکوں میں امریکہ‘ اسرائیل اور ان کی حمایت کرنے والے یورپی ممالک کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارا۔ لیکن امریکہ کی طاقت کے خلاف عرب قوم پرستی کی تحریک اپنے دو بڑے مقاصد ''عرب اتحاد اور فلسطین کی آزادی‘‘ حاصل نہ کر سکی اور جون 1967ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی تیسری جنگ میں عربوں کی شکست فاش سے سیاسی تحریک کی کمر ٹوٹ گئی اور چوتھی عرب اسرائیل جنگ (1973-74ء) میں امریکہ کی مدد سے اسرائیل کے جوابی حملے کی کامیابی نے عرب قوم پرستی کو بحیثیت ایک سیاسی قوت کے بالکل غیر مؤثر کر دیا۔
بیرونی چیلنجز میں سابق سوویت یونین کی طرف سے خطے میں نظریاتی اور عسکری اثرو رسوخ کے حصول کی کوشش شامل تھی۔ نظریاتی اثرورسوخ کے لیے سابقہ سوویت یونین نے مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ روابط کو فروغ دیا اور عسکری اثرورسوخ کیلئے مصر‘ شام‘ یمن‘ عراق اور لیبیا میں قوم پرست حکومتوں کو ہتھیار سپلائی کرنے کے علاوہ مشرقی بحیرۂ روم اور بحر ہند میں جنگی بحری جہاز داخل کرکے اپنی بحری قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عرب قوم پرست حکومتوں کی طرف سے اپنے ہاں کی کمیونسٹ پارٹیوں کے خلاف کارروائیوں اور جبرالٹر سے لے کر آبنائے ملاکا تک امریکہ کے فوجی اور بحری اڈوں کی لمبی زنجیر کے آگے سابقہ سوویت یونین کی ان خطوں میں عسکری قوت کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ 1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے اور سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی بالا دستی اور کنٹرول کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت باقی نہ رہی اور امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور کی حیثیت سے دیگر علاقوں کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی یکطرفہ فوجی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے لگا۔ اس کی مثال 2003ء میں عراق پر امریکی افواج کا حملہ تھا۔ مگر مشرقِ وسطیٰ میں اب امریکی بالا دستی کے خلاف ایک نیا چیلنج ابھر رہا ہے۔ یہ چیلنج چین کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے اور خطے میں امریکہ کو ماضی میں درپیش چیلنجز سے بالکل مختلف ہے کیونکہ کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود سابق سوویت یونین کے برعکس چین مشرقِ وسطیٰ میں مقامی کمیونسٹ پارٹیوں کے ذریعے کیمونزم پھیلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ دوسرے ملکوں کے اندرونی سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ چین کو اس پالیسی سے وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور افریقہ کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی مقامی حکومتوں اور عوام کی خیر سگالی اور اعتماد حاصل ہوا۔
مشرقِ وسطیٰ شروع ہی سے چین کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اور اس کی وجہ تاریخی ہے۔ قدیم زمانے میں تجارت‘ سیاست‘ مذہب‘ ثقافت اور علم و فن کے شعبوں میں چین اور یورپ کے درمیان رابطوں کے راستے مشرقِ وسطیٰ ہی سے گزرتے تھے۔ پندرہویں صدی کے بعد یورپی نوآبادیاتی نظام کے فروغ کی وجہ سے خشکی کے بجائے سمندر کے راستے تجارت کو ترجیح دی جانے لگی‘ لیکن اب چین کا بین البراعظمی تجارتی شاہراہوں پر مشتمل نیٹ ورک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ جس کا سب سے اہم منصوبہ سی پیک ہے‘ قدیم زمانے کی تجارتی شاہراہوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک بڑی طاقت ہونے کی حیثیت سے چین نے مشرقِ وسطیٰ کی ڈپلومیسی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور 1971ء میں سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی نشست کی بحالی کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں اس کے کردار کی اہمیت میں اضافہ ہوا ۔ اس کے ساتھ چین نے خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت‘ سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے دو طرفہ تعلقات قائم کیے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال چین‘ سعودی عرب تجارتی تعلقات ہیں۔ اس وقت سعودی عرب چین کو خام تیل سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ چین کو کثیر مقدار میں تیل برآمد کرنے کے علاوہ سعودی عرب نے چین میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورے کے دوران چین اور سعودی عرب نے مختلف شعبوں میں تقریباً 29بلین ڈالر مالیت کے منصوبوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس سے تجارت‘ سرمایہ کاری‘ صنعت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین اور سعودی عرب کے درمیان تعاون اور بھی گہرا اور وسیع ہو جائے گا۔ صدر شی کے اس دورے کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ اس دوران چینی صدر نے سعودی عرب اور خلیج فارس کی دیگر عرب ریاستوں یو اے ای‘ قطر‘ بحرین‘ کویت اور مسقط و عمان پر مشتمل خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ ایران کے ساتھ پہلے ہی چین کے اہم تجارتی اور معاشی تعلقات قائم ہیں۔ اس طرح خلیج فارس کے اہم خطے میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر امریکہ کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس خطے میں نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے مغربی یورپ کے اتحادی ممالک کے بھی اہم تجارتی‘ معاشی اور دفاعی مفادات موجود ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے رواں سال کے لیے نیشنل سکیورٹی پالیسی میں چین کو امریکی مفادات کیلئے روس سے بھی زیادہ بڑا چیلنج قرار دیا گیا۔ اس کی ایک وجہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ہے‘ جسے امریکہ اپنے مفادات کیلئے چیلنج سمجھتا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکہ کے تینوں اہم اداروں‘ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ‘ محکمہ دفاع (پنٹا گون) اور نیشنل سکیورٹی کونسل نے صدر شی کے حالیہ دورۂ سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک کے ساتھ سربراہی کانفرنس میں شرکت پر ایسے تبصرے کیے ہیں جن سے امریکہ کا اضطراب جھلکتا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بشمول سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی و معاشی تعلقات کسی طرح بھی ان خطوں میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان ممالک خصوصاً سعودی عرب کا دفاع اور تیل کی صنعت میں امریکہ پر اتنا انحصار ہے کہ یہ ممالک امریکہ سے ہٹ کر چین کے قریب جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسرا خطے میں امریکی مفادات کو چیلنج کرنا چین کی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی چین اس خطے میں اتنی فوجی قوت جمع کر سکتا ہے‘ جو امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال سکے۔ کیونکہ خود سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کے مطابق جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس کے اردگرد پانیوں میں امریکہ کے تین بڑے بحری بیڑوں سے تعلقات رکھنے جنگی بحری جہازوں‘ طیارہ بردار جہازوں اور آبدوزوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے کہ کوئی ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک صرف چین سے ہی نہیں بلکہ روس‘ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب‘ چین کو امریکہ کا متبادل نہیں سمجھتا بلکہ ایک ابھرتی ہوئی متبادل معاشی قوت کے طور پر اس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کر رہا ہے۔ جو کہ ہر آزاد اور خود مختار ملک کا حق ہے۔