پاکستان (اور بھارت) میں سیاسی پارٹیوں کا دھڑوں میں تقسیم ہونا نئی اور انوکھی بات نہیں ہے‘ لیکن دھڑوں کے پرانے پرچم تلے متحد ہونے کی مثال شاذونادر ہی دیکھنے یا سننے میں آتی ہے۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو ہی لے لیجئے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک درجن مسلم لیگیں ملک میں موجود ہوں گی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والی اس سیاسی جماعت میں توڑ پھوڑ اور دھڑے بندی کا عمل بانیٔ پاکستان کی وفات کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہروردی نے اصلی مسلم لیگ سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنائی تھی۔ پہلے اس کا نام عوامی مسلم لیگ تھا لیکن بعد میں اسے عوامی لیگ کہا جانے لگا۔ یہی جماعت آج کل بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی وزیراعظم حسینہ واجد کی سربراہی میں حکومت کر رہی ہے۔ مغربی پاکستان میں میاں افتخارالدین اپنے چند دوستوں کے ساتھ حکمران جماعت مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کا نام آزاد پاکستان پارٹی رکھا تھا۔ میاں افتخارالدین اور حسین شہید سہروردی کے مسلم لیگ چھوڑ کر علیحدہ پارٹیاں بنانے کے پیچھے ذاتی سے زیادہ سیاسی اور نظریاتی وجوہات کارفرما تھیں‘ لیکن بعد میں مختلف اور درجن سے زیادہ وجود میں آنے والی مسلم لیگوں کی پیدائش میں ذاتی وجوہات کا زیادہ کردار رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نئی مسلم لیگیں کسی نظریے یا مقصد کے ہونے سے نہیں بلکہ اپنے بانی کے نام سے جانی جاتی ہیں‘ مثلاً مسلم لیگ (قیوم)‘ جونیجو مسلم لیگ‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق)‘ پاکستان مسلم لیگ (زہری گروپ)۔ ذاتی‘ گروہی‘ سیاسی یا نظریاتی بنیادوں پر دھڑے بندی یا توڑ پھوڑ کا عمل پاکستان مسلم لیگ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ مذہبی اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ پاکستان کی ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام تقریباً پانچ دھڑوں میں منقسم ہو چکی ہے۔
1960ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین اور چین کے درمیان نظریاتی اختلافات کے تحت دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی بائیں بازو کی تحریک کئی دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کے بھی ایک سے زیادہ دھڑے موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنی عجلت میں ان سیاسی پارٹیوں میں تقسیم اور دھڑے بندی کا عمل شروع ہوا‘ اتنے ہی جوش و خروش سے ان دھڑوں کو پھر ایک پلیٹ فارم پر لانے یا ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دی گئی تھیں۔ اس تمام عمل یعنی سیاسی پارٹیوں کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے اور ان دھڑوں کو پھر سے متحد کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو تین نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول: جب تک قیادت مضبوط شخصیت کے ہاتھوں میں رہی‘ دھڑے بندی کا عمل شروع نہیں ہو سکا‘ اگر شروع ہوا بھی تو اس سے پارٹی کو نقصان نہیں پہنچا۔ دوم: اس توڑ پھوڑ اور دھڑے بندی کے پیچھے زیادہ تر ذاتی اختلافات کا کردار رہا ہے‘ اور سوم: دوبارہ اتحاد یا ایک دوسرے میں ضم ہونے کی کوششیں اکثر حالتوں میں یا تو بے سود رہیں یا پھر مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
اس تناظر میں اگر ہم ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کی طرف سے دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے یا سابقہ ایم کیو ایم کو بحال کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس لیے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا وجود تین عوامل کا مرہونِ منت تھا‘ طاقتور حلقوں کی تائید‘ بانیٔ متحدہ الطاف حسین کی شخصیت اور مختلف حربوں سے لوگوں پر کنٹرول۔ 22 اگست 2016ء کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم کا کوئی دھڑا سوائے ایم کیو ایم (لندن) کے‘ بانیٔ متحدہ سے اعلانیہ وابستگی کا اظہار نہیں کرتا۔ ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھیرنے میں اگر کسی ایک فیکٹر نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے تو وہ جماعت کے بانی سے لاتعلقی کا اعلان ہے۔ لیکن بانیٔ متحدہ کی قیادت مسترد کرنے کے باوجود ایم کیو ایم کے کسی دھڑے نے اُن کے نظریے اور بیانیے سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا۔
ایم کیو ایم پاکستان‘ جس کے کنوینر خالد مقبول صدیقی ہیں‘ کا اصرار ہے کہ ان کا بانیٔ متحدہ یا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ مہاجر قوم پرستی کے نعرے کو بدستور اپنائے ہوئے ہیں۔ اپنی سیاست کو وسیع تر قومی تناظر میں جاری رکھنے کے بجائے لسانیت کی بنیاد پر وہی موقف اختیار کیا ہوا ہے جو بانیٔ متحدہ نے اختیار کیا تھا۔ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کی بنیاد لسانی بنیاد پر قومی تشخص ہے‘سندھ کی تقسیم اور مہاجر صوبے کے قیام کا مطالبہ اس کا منطقی نتیجہ ہے‘ مگر اس کے لیے جدوجہد میں اسے نہ صرف سندھی قوم پرستوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے بلکہ پاکستان کے کسی بھی حصے سے اس کی حمایت کی توقع نہیں۔ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے چنانچہ کسی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر وجود میں نہیں آئے بلکہ ان کی پیدائش ذاتی اور گروہی مفادات کا نتیجہ ہے اور ان کے باہمی متحد ہونے یا انضمام میں بھی وہی ذاتی مفادات حائل ہیں۔ 22 اگست 2016ء کے بعد لندن سے ایم کیو ایم کو کنٹرول کرنے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ ستمبر 2013ء سے حکومت سندھ کی سرکردگی میں جاری پولیس اور رینجرز کے آپریشن نے کراچی میں جرائم پیشہ سرگرمیوں کو بھی کافی حد تک ختم کر دیا تھا۔ بانیٔ متحدہ کی قیادت سے محروم ہونے کے بعد ایم کیو ایم کا مختلف دھڑوں میں بٹ جانا ایک منطقی بلکہ ناگزیر امر تھا۔ خالد مقبول صدیقی نے ایم کیو ایم پاکستان کی شکل میں بانیٔ متحدہ کے بیانیے کو زندہ رکھنے کی کوشش کی تھی مگر اب اس سودے کا سیاسی بازار میں کوئی گاہک نہیں۔ اس کا ثبوت 2018ء کے انتخابات کی شکل میں مل گیا تھا جب روایتی طور پر ایم کیو ایم کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارکامیاب ہو گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے اردو بولنے والے ووٹرز ایم کیو ایم سے مایوس ہو کر اب پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنا چکے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر دھڑوں کے رہنما اردو بولنے والوں کی اس مایوسی کو ایم کیو ایم کی صفوں میں انتشار اور دھڑے بندی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس انتشار اور دھڑے بندی کو ختم اور متحد ایم کیو ایم کو بحال کرکے ایم کیو ایم کے روایتی ووٹ بینک کو دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ محض خوش فہمی ہے‘ کراچی کے اردو بولنے والے لوگ خصوصاً نوجوان ایم کیو ایم کا اس لیے ساتھ چھوڑ گئے ہیں کہ مہاجر قوم پرستی کی بنیاد پر اس جماعت کی قیادت نے انہیں جو خواب دکھائے تھے‘ وہ پورے نہیں ہوئے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کا تجربہ بھی کر چکے ہیں۔ ان حالات میں ان کے لیے پی ٹی آئی کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے دھڑوں کی طرف سے اتحاد کی کوششوں میں بھی کراچی کے نوجوان کے لیے دلکشی نہیں کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ متحد ہو کر بھی ایم کیو ایم کے پاس کراچی کے ووٹرز کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہو گی۔ اول تو اتحاد کی کوششیں ابھی ابتدائی سطح پر ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینئر لیڈر اور کراچی کے سابقہ میئر وسیم اختر کے بیان کے مطابق ابھی اس سمت میں مختلف دھڑوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ گورنر کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ یہ ان کا انیشی ایٹو ہے اور (جیسا کہ عام تاثر پایا جاتا ہے) اس کے پیچھے کسی طاقتور کا ہاتھ نہیں‘ لیکن ذاتی مفادات آڑے آنے کا بہت امکان ہے۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کا اتحاد بھی مسلم لیگ کے دھڑوں میں اتحاد کی طرح ایک خواب ثابت ہو گا۔