تین جنوری کو اسرائیل کی نئی حکومت کے ایک وزیر نے مسلمانوں کے دوسرے سب سے بڑے مقدس مقام بیت المقدس میں واقع مسجد الاقصیٰ میں داخل ہو کر ایک انتہائی اشتعال انگیز حرکت کی جس کی نہ صرف عرب اور مسلم دنیا نے بلکہ بین الاقوامی برادری کے اہم ملکوں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی مذمت کی جبکہ پچھلے سال اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدات پر دستخط کرکے یہودی ریاست کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرنے والے خلیجی ملک متحدہ عرب امارات اور چین نے صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اسرائیل کے کسی وزیر نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی‘ مگر نومبر میں انتخابات کے بعد اسرائیل میں پانچ سال کے لیے اقتدار سنبھالنے والی حکومت پر الٹرا رائٹسٹ اور انتہا پسند‘ قدامت پسند صیہونیت کی علمبردار سیاسی پارٹیوں کے غلبہ حاصل کرنے کی وجہ سے وزیر برائے نیشنل سکیورٹی اتمار بن گویر کا مسجد اقصیٰ میں داخل ہونا‘ وہاں یہودی مذہب کے مطابق عبادتی رسومات ادا کرنا‘ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ گویر اسرائیلی کابینہ میں شامل اپنے دیگر قدامت پسند اور انتہا پسند ساتھیوں کے ہمراہ مسجداقصیٰ کو یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس ارادے کا اظہار اس نے مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر برملا یہ کہتے ہوئے کیا کہ مسجداقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ اسرائیل کا وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو بھی دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے مشرقی حصے میں غیرقانونی یہودی بستیوں کو بسا کر فلسطینی گھروں کو مسمار کرنے کا عمل بھی اس کے ہر دور میں جاری رہا ہے‘ مگر بین الاقوامی ذرائع‘ جن میں مغربی میڈیا بھی شامل ہے‘ کے مطابق اسرائیل کی 75سالہ تاریخ میں اتنی انتہا پسند‘ مذہبی اور قدامت پسند حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ نیتن یاہو کے وزیر نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں کھڑے ہو کر مسجد کی حیثیت تبدیل کرنے کا جو ارادہ ظاہر کیا ہے‘ اُس نے بھی اس کی تردید نہیں کی بلکہ انتہا پسند صیہونی اتحادیوں کے دباؤ میں آ کر اسرائیل کے آئینی اور قانونی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے کے لیے بل کی حمایت کی ہے‘ جس سے سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ بلوں کی آئینی حیثیت متعین کرنے کا حق واپس لے لیا جائے گا۔ بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ یتن یاہو مخلوط حکومت میں شامل اپنے انتہا پسند اتحادیوں کے دباؤ کے تحت ایسے اقدامات کی اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا ہے۔ ان مقدمات میں ان پر فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔ نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ان کے خلاف ان مقدمات کو ختم کر دیا جائے یا انہیں ایک لمبے عرصے کے لیے مؤخر کر دیا جائے اور یہ مقصد انتہا پسند یہودی پارٹیوں کے تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کی سیاست پر انتہا پسند اور دائیں بازو کے نظریات کے مالک یہودیوں کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال نیتن یاہو کا بار بار وزیراعظم منتخب ہونا ہے جس نے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں اور فلسطینیوں کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ عرب علاقوں خصوصاً دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع فلسطینی علاقے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کو آبادکرنے کی پالیسی مسلسل جاری رکھی ہے۔
نومبر2022ء کے بعد سے نیتن یاہو پہلے سے بھی زیادہ فلسطین دشمن پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے کیونکہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی حمایت کے بغیر اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ دائیں بازو کی ان پارٹیوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ کابینہ میں شامل اس کے وزیر خزانہ اور نیشنل سکیورٹی کے محکموں پر قابض ہیں۔ نیتن یاہو جو کہ خود انتہا پسند نظریات کا مالک ہے‘ اپنے سے زیادہ انتہا پسند قوتوں کے شکنجے میں آ چکا ہے اور وہ ان کے اشارے پر پارلیمنٹ میں لیگل ریفارمز کے نام پر بل لا کر سپریم کورٹ کو بے اختیار کرنا چاہتا ہے تاکہ نئی حکومت نے فلسطینیوں اور دیگر عرب اقلیتوں کے حقوق کو مزید سلب کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے‘ اسرائیل کی سپریم کورٹ اس پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ دائیں بازو کی سوچ اسرائیلی سیاست میں کافی راسخ ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات اور فلسطینیوں کی علیحدہ آزاد ریاست پر اپنے وعدوں سے منحرف ہو چکی ہے اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کا وہ حصہ جہاں فلسطینیوں کی اکثریت آباد ہے‘ اب یہودی آباد کاروں کی بستیوں میں تبدیل ہو رہا ہے۔
نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کے انتہا پسند اور مذہبی جنونی عناصر کا اسرائیل کے بارے میں یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کہ اسرائیل صرف یہودیوں کے لیے ہے اور اگر مغربی کنارے اور بیت المقدس کے مشرقی علاقے سے فلسطینیوں کو نکالا جائے گا‘ یا مسجد اقصیٰ کو یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا جائے گا تو نہ صرف بین الاقوامی برادری بلکہ خود اسرائیلی یہودی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے ان اقدامات کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ اسرائیل کے شہر تل ابیب میں چند روز قبل ہزاروں افراد نے موجودہ حکومت کی ان پالیسیوں کے خلاف جو مظاہرے کیے‘ ان میں اسرائیل کے عرب باشندوں کے علاوہ اسرائیلی یہودی باشندوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ ان مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل کی موجودہ دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے اسرائیل کو ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی حکومتوں نے فلسطینی باشندوں کی دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں زمینوں کو زبردستی چھین کر یہودیوں کی بستیاں بسانے کا جو غیرقانونی کام کیا ہے‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں اسے عالمی عدالتِ انصاف میں قانونی رائے حاصل کرنے کیلئے بھیجنے کے حق میں قرارداد منظور کی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے 39ملین ڈالرز روکنے کے علاوہ فلسطینی حکام کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے‘ مگر اسرائیل کے اندر سے اور اس کے ارد گرد مسلم دنیا اور تمام عالمی برادری میں اسرائیل کی موجودہ حکومت کی مذہبی انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے۔
اسرائیل میں انتہا پسند اور مذہبی سوچ رکھنے والے عناصر کے حکومت پر قبضے کو یورپ اور امریکہ میں بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے‘ خصوصاً قانونی اصلاحات کی آڑ میں اسرائیل کی اعلیٰ عدلیہ کے پر کاٹنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے‘ اس پر میڈیا‘ نظام انصاف اور جمہوری حلقوں میں اسرائیل کے روایتی حامی بھی موجودہ حکومت کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ان کے خیال میں انتہا پسندوں نے اسرائیلی حکومت پر قبضہ جما لیا ہے اور وہ اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر اسرائیل کو ایسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ اسرائیل میں جمہوریت کے خاتمے اور غیر یہودی آبادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ خود اسرائیل میں بھی یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ مذہبی انتہا پسند عناصر‘ جنہیں کئی حلقے طالبان سے تشبیہہ دیتے ہیں‘ کے زیر اثر موجودہ حکومت باہر سے آنیوالے آباد کاروں کی خاطر اسرائیل کے دیگر اور اکثریتی باشندوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے کیونکہ انکے خیال میں اسرائیل کی بقا اور علاقائی امن کا تقاضا ہے کہ فلسطینی حقوق تسلیم کیے جائیں اور یہودی اور غیریہودی باشندوں کو پرامن بقائے باہمی کے تحت زندگی بسر کرنے کا ماحول مہیا کیا جائے۔