"DRA" (space) message & send to 7575

اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات

ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی (پنجاب) اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے تقریباً سات ماہ قبل تحلیل کر دی گئی۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی سیاست بصیرت سے نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب بننے میں کامیاب رہے بلکہ اب اپنے ماسٹر سٹروک سے یہ اسمبلی تحلیل بھی کر چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل ہو کر قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اسمبلی تحلیل کرنے کی جو سمری 17جنوری کو گورنر کو ارسال کی تھی‘گورنر خیبر پختونخوا گزشتہ روز اُس سمری پر دستخط کر چکے ہیں۔اس حوالے سے اُن کا مؤقف تھا کہ وہ اس معاملے کو التوا میں ڈال کر عوام کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے وزیراعلیٰ محمود خان اور قائدِ حزب اختلاف اکرم خان درانی کو ارسال کیے گئے اسمبلی تحلیل کرنے کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی اور صوبائی کابینہ کو آئین کے آرٹیکل 112کی شق ون کے تحت فوری طور پر تحلیل کردیا گیا ہے۔ گورنر کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کے لیے وزیراعلیٰ محمود خان اور قائدِ حزب اختلاف کو 21 جنوری تک اس عہدے کے لیے اپنے نامزد امیدواروں کے نام فراہم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان دو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وفاقی حکومت کے سامنے عام انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہے گا مگر حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور ان کی پارٹی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔ ساری نظریں اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی عبوری حکومتوں اور 90 دن کے بعد ممکنہ انتخابات اور ان کے نتائج پر ہیں۔ ان انتخابات میں اگر تحریک انصاف کلین سویپ کرتی ہے اور موجودہ سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن کے ساتھ ابھرتی ہے‘ جس کا اسے پکا یقین ہے‘ تو وفاقی حکومت پر دباؤ میں اضافہ توہو گا‘ لیکن ضروری نہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف صدر کو قومی اسمبلی اور باقی دو صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کی تحلیل کا مشورہ دے کر قبل از وقت عام انتخابات کی راہ ہموار کر یں کیونکہ ایک تو ایسا کرنے کیلئے ان پر کوئی آئینی اور قانونی پابندی نہیں ہے اور سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی شاید اس پر راضی نہ ہوں گی۔ پنجاب اور سندھ میں پی ڈی ایم اور پاکستان تحریک انصاف اپنی اپنی پوزیشن کے متعلق ایک دوسرے سے متضاد دعوے کر رہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے اپنی جماعت کی کامیابی پر اعتماد کے لہجے میں کہا ہے کہ وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو شکست دیں گے‘ مگر انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے اعتماد کے ووٹ کے وقت بھی اسی قسم کے دعوے کیے تھے۔بہرحال (ن) لیگ کی کامیابی اس کے رہنما نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی سے مشروط سمجھی جاتی ہے۔
دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا‘ جہاں پی ٹی آئی مسلسل تیسری بار حکومت بنا کر صوبے کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرنا چاہتی ہے‘ میں پی ٹی آئی کو پہلے سے زیادہ اسمبلی نشستیں حاصل ہونے کی امید ہے‘ مگر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا ہے کہ صوبے میں اگلی حکومت ان کی پارٹی بنائے گی؛ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مقابلہ سخت ہوگا۔ پی ٹی آئی کو ان دونوں صوبوں میں اپنی کامیابی کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اپنے بیانات اور میڈیا ٹاکس میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت کے خاتمے کے خلاف پنجاب میں عوامی ردِ عمل اور ضمنی انتخابات کے نتائج کا جواز دے کر دو تہائی سے بھی زیادہ کامیابی حاصل ہونے کی امید رکھتے ہیں‘ لیکن ان کا اصل ٹارگٹ وفاقی حکومت کو عام انتخابات پر مجبور کرنا ہے۔
فرض کیجئے کہ عمران خان اپنے ٹارگٹ کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور دو تہائی اکثریت سے دوبارہ ملک کے وزیراعظم بن جاتے ہیں تو پاکستان اور خطے کے سیاسی حالات ممکنہ طور پر کیا رُخ اختیار کر سکتے ہیں‘ یہ ایک اہم سوال ہے۔سب سے پہلے تو پاک افغان تعلقات کی بات کرتے ہیں۔ خان صاحب کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا سلسلہ رُک سکتا ہے کیونکہ خان صاحب کی طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے کی اپنی حکمت عملی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب قوانین میں جو ترامیم کی ہیں‘ عمران خان اگر وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ بھی فوراً واپس لی جا سکتی ہیں اور ''چوروں‘ ڈاکوؤں‘ منی لانڈرنگ اور کرپشن میں ملوث‘‘ عناصر کو دوبارہ جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔ فوری طور پر 1973ء کے آئین کے تحت ملک کے موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے خصوصاً 18ویں آئینی ترمیم کا از سر نو جائزہ لینے کا آغاز بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس ترمیم نے بقول عمران خان مرکز سے صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کرکے اول الذکر کو کنگال کر دیا ہے اور موخرالذکر کے سربراہوں (وزرائے اعلیٰ) کو آمرِ مطلق بنا دیا ہے۔ دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کی اولین ترجیحات میں سے ایک نظامِ انصاف کی ری سٹرکچرنگ بھی ہو سکتی ہے۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مقتدرہ کو صرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر رہنے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ پولیس کے تھانوں‘ فوجی چوکیوں اور شہری علاقوں میں مسلح اور خود کش حملوں سے ٹی ٹی پی کو باز رکھنے کے لیے کالعدم تنظیم سے بات چیت کا آغاز بھی ہو سکتا ہے تاکہ ملک میں امن قائم کیا جاسکے۔ ڈالرز کے لیے مدد مانگنے کے لیے بیرونی دوروں کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کا جال پھیلایا جا سکتا ہے اور نریندر مودی کے بھارت کی طرح ''میڈ اِن پاکستان‘‘ کی پالیسی اپنا کر باہر سے درآمدات کو ممکنہ حد تک کم کرنے کو بھی ترجیح بنایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے اس عہد کو دہرایا ہے کہ اگر انہیں ایک کمزور حکومت ملی تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ اس لیے مندرجہ ذیل اصلاحات/ اقدامات کا انحصار پاکستان تحریک انصاف کی آئندہ قومی انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی سے مشروط ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں