پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے کی پوری قوم نے متحد ہو کر پرزور مذمت کی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی عوام اس قسم کے بزدلانہ اور ظالمانہ اقدامات سے حوصلہ ہارنے والے نہیں بلکہ اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اس کے مرتکب اور ان کی سرپرستی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست کے تمام وسائل اور قوت استعمال کی جائے تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ قوم کے اس عزم کے بارے میں پہلے کوئی شک تھا اور نہ ہی اب ہے‘ مگر اسے ایک مربوط اور مؤثر شکل میں ڈھالنے کے لیے ایک پُرعزم اور دلیر قیادت کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو ایک بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ اس کے سامنے مشکلات کا ایک انبار ہے۔ ابتر معاشی صورتحال کے علاوہ اپوزیشن کی طرف سے سیاسی چیلنج بھی موجود ہے۔
پشاور میں دہشت گردی کی کارروائی ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے اور اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسے بجا طور پر پاکستان پر حملہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اب اس چیلنج سے نمٹنے پر ہے‘ مگر اس میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سب سٹیک ہولڈرز بشمول اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے۔ پشاور کے خودکش حملے کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کا مقصد قوم میں نفاق ڈالنا ہے تاکہ دہشت گرد اپنے عزائم میں آسانی کے ساتھ کامیاب ہو سکیں۔ اس لیے وفاقی حکومت کو ہر ایسے اقدام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے قوم میں پہلے سے موجود سیاسی اور نظریاتی تقسیم اور زیادہ گہری ہو جائے۔ اب وفاقی حکومت بار بار دہرائے جانے والی اس آئینی شق کا سہارا نہیں لے سکتی کہ چونکہ لا اینڈ آرڈر صوبائی مسئلہ ہے‘ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری بھی صوبائی (خیبر پختونخوا) حکومت کی ہے۔ سابقہ (پی ٹی آئی) حکومت کے دور میں وفاقی حکومت نے یہی بیانیہ اختیار کر رکھا تھا اور سابق وزیراعلیٰ محمود خان کی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے پر تعاون اور باہمی مفاہمت کا فقدان تھامگر اب نگران حکومت کے ہوتے ہوئے اس قسم کی شکایت کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔
اس وقت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے سامنے دہشت گردی کے علاوہ ایک اہم مسئلہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد بھی ہے۔ اگرچہ دونوں کا آپس میں کوئی براہِ راست تعلق نہیں مگر صاف‘ شفاف اور پُرامن انتخابات کے لیے امن و امان کے جس تسلی بخش ماحول کی ضرورت ہے اس کے پیش نظر متعدد حلقوں‘ خصوصاً میڈیا میں اس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ان حالات میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟
پنجاب اسمبلی 14 جنوری اور خیبرپختونخوا اسمبلی اس کے چار دن بعد 18 جنوری سے تحلیل ہو چکی ہے اور آئین کی رو سے ان صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر ہونا لازمی ہیں لیکن دونوں صوبوں کے گورنرز کی طرف سے ابھی تک انتخابی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا‘حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کی ممکنہ تاریخوں سے صوبائی حکومتوں کو آگاہ کر دیا ہے۔ صوبائی گورنرز کی طرف سے ضمنی انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان میں تاخیر سے مختلف افواہیں اور قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں اور کئی طرح کے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کی طرف سے تو یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت صوبائی و قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کو غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کرنا چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی پارٹیاں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز کی لندن سے وطن واپسی بھی ظاہر کرتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں حصہ لینے خصوصاً پنجاب میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے‘ مگر اس کے باوجود گورنر کی جانب سے صوبائی اسمبلی انتخابات کی تاریخ نہ دینے سے پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں میں موجود نگران حکومتوں کو تین ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس دوران وہ مختلف انتظامی اقدامات سے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی راہ ہموار کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی گورنرز کی طرف سے ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا‘ بلکہ ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے اپوزیشن کا شک یقین میں تبدیل ہو رہا ہے مثلاً خیبرپختونخوا گورنر سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے 400قبائلی عمائدین نے ان حالات میں انتخابات کو تین چار ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے۔ خود انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے لیے ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ''تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔
ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا پشاور کے خوفناک دہشت گردی کے واقعہ کے بعد صوبائی حکومت خیبر پختونخوا میں انتخابات کو مؤخر کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تو انہوں نے واضح اور غیر مبہم جواب دینے کے بجائے صرف یہ کہا ''ابھی تک اس نوع کا کوئی اقدام زیر غور نہیں‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 23نومبر کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دو سیاسی پارٹیوں کا نام لے کر انہیں انتخابات میں خصوصی طور پر ٹارگٹ بنانے کا اعلان کیا اور زیادہ دور کی بات نہیں‘ 2008ء کے انتخابات میں اس تنظیم کی طرف سے عوامی نیشنل پارٹی‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو اعلانیہ ٹارگٹ بنانے سے جو اثرات مرتب ہوئے تھے‘ وہ ہمارے سامنے ہیں۔
مگر ان سب باتوں کے باوجود اگر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ملتوی کرتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نقصان ہوگا بلکہ اس سے دہشت گردوں کو غلط پیغام جائے گا اور وہ دہشت گردی کی تازہ ترین کارروائیوں کو اپنی کامیابی تصور کریں گے اور مزید کھل کھیلنا شروع کر دیں گے۔ دوسرے‘ انتخابات کے ملتوی ہونے سے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے اس مؤقف کو کہ حکومت اس کے ہاتھوں شکست کے خوف سے انتخابات سے بھاگ رہی ہے‘ عوام میں مزید پذیرائی حاصل ہو گی اور اس کی عوامی مقبولیت میں اور اضافہ ہو گا۔ اس لیے حکومت کو ہر حال میں 90دن کی مدت ختم ہونے سے پہلے صوبوں میں انتخابات کرانے چاہئیں۔ اگر ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ تباہ کن جنگ کے باوجود اوّل الذکر ملک میں باقاعدہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور سری لنکا میں تقریباً 30سال تک خونریز خانہ جنگی کے باوجود جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے نہیں اتری تو پاکستان کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات‘ جو عوام اور سکیورٹی فورسز کو خوف زدہ کرنے میں صاف طور پر ناکام رہے ہیں‘ کی وجہ سے انتخابات کو ملتوی کرکے عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنے کا کیا جواز ہے؟ دہشت گردی کو صوبائی انتخابات کے انعقاد کے التوا کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں۔