وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے موجودہ چیلنج سے نمٹنے میں افغانستان کی موجودہ عبوری (طالبان) حکومت سے مخلصانہ تعاون کی توقع رکھتا ہے اور امید ہے کہ اس سلسلے میں کابل انتظامیہ نے بین الاقوامی برادری سے جو وعدے کیے ہیں‘ وہ ان پر پورا اترے گی۔ اگرچہ اس بیان سے پاکستان اور افغانستان کی طالبان انتظامیہ کے درمیان تمام اختلافات ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کو کچلنے میں تحریک طالبان افغانستان کی طرف سے اس قسم کے تعاون کی امید کی جا سکتی ہے جو پاکستان چاہتا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس سے زیادہ حقیقت پسندانہ بیان اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے اس میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی پر افغانستان کے تعاون کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ایسی ہے کہ اس کے آر پار آمد و رفت کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستان نے اس کو روکنے کے لیے 500 ملین ڈالر لاگت سے باڑ لگائی ہے مگر وہ دراندازی کو مکمل طور پر روک نہیں سکی۔ اب تو سنا ہے کہ افغان طالبان نے جگہ جگہ سے اس آہنی دیوار کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ اس طرح سرحد کے آر پار آمد و رفت میں اگر کوئی رکاوٹ تھی تو وہ بھی دور ہو گئی ہے اور پاکستان کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف ملٹری آپریشن کی صورت میں اگر دہشت گرد پہلے کی طرح بھاگ کر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لینے کے لیے سرحد پار جانے کی کوشش کریں گے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ لگنے والے سرحدی علاقوں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کا تشویش میں مبتلا ہونا قدرتی امر ہے۔
وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں جس دوسری حقیقت کی طرف افغان طالبان کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے‘ وہ ان کے وعدے ہیں جو انہوں نے دو سال قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ غیرملکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے کیے تھے۔ اس معاہدے میں شامل ایک شرط کے تحت افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کو کسی ہمسایہ یا کسی اور ملک کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ لیکن پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور امریکہ کو بھی شکایت ہے کہ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے اور ایک ایسے ہوٹل جہاں چینی ورکرز اور انجینئرز کا اکثر آنا جانا رہتا تھا‘ پر دہشت گردوں کے حملوں کو اس ضمن میں بطورِ ثبوت پیش کیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان کا اصرار ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغان سرزمین سے آپریٹ نہیں کر رہی بلکہ اس کی کارروائیاں پاکستانی علاقوں سے کی جا رہی ہیں۔
اس ضمن میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے رکن اور قائم مقام وزیر خارجہ کا یہ بیان قابلِ غور ہے کہ اگر افغانستان دہشت گرد کارروائیوں کا مرکز ہوتا تو یہ کارروائیاں چین‘ چیچنیا‘ ازبکستان اور تاجکستان میں بھی ہو رہی ہوتیں۔ اس بیان کا سیاق و سبا ق یہ ہے کہ کابل پر قبضے کے فوری بعد طالبان حکومت کے ایک اہم رہنما نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں ان کے ساتھ افغانوں کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی شامل تھے۔ طالبان رہنما نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ کے سامنے یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ ان جنگجوؤں‘ جن کی تعداد ہزاروں میں تھی‘ کے بارے میں کیا پالیسی اپنائی جائے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان کی طرح جن تنظیموں کے جنگجو افغانستان کی جنگ میں طالبان کا ساتھ دیتے رہے ہیں‘ ان کی حکومتوں نے انہیں کالعدم قرار دے رکھا تھا لیکن باقی جنگجوؤں کے مقابلے میں کالعدم ٹی ٹی پی کا مسئلہ جدا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان‘ تحریک طالبان افغانستان کو اپنا نظریاتی رہنما سمجھتی ہے اور یہ تنظیم ایک ایسے ملک یعنی پاکستان سے برسرِ پیکار رہی ہے جس کی ہمدردیاں کسی دور میں تحریک طالبان افغانستان کو حاصل رہیں بلکہ دنیا کی نظر میں پاکستان نے اسے مقدور بھر سہولتیں فراہم کر رکھی تھیں۔ اس کے عوض پاکستان کو یقین کی حد تک امید تھی کہ افغان طالبان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کی شرائط پر واپس جانے کی اجازت دیں گے لیکن افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر دبائو ڈالنے سے انکار کر دیا‘ البتہ ان کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔ پاکستان نے یہ پیشکش قبول کر لی اور یوں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021ء کے موسم گرما میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا‘ جس کا انکشاف وزیراعظم عمران خان نے اکتوبر 2021ء میں ایک غیرملکی نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں کیا تھا۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ یہ مذاکرات کچھ عرصے سے کابل میں طالبان کی وساطت سے ہو رہے ہیں مگر ان مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے کون نمائندگی کر رہا ہے‘ اور یہ مذاکرات کن شرائط پر ہو رہے ہیں؟ اس بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی؛ البتہ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان مذاکرات‘ اور مذاکرات کے نتیجے میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیاتھا۔ ان فیصلوں میں ایک فیصلہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تقریباً پانچ ہزار جنگجوؤں اور 30ہزار کے قریب ان کے فیملی ممبرز کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں دوبارہ بسانے کا وعدہ بھی شامل تھا۔
انہی مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی قید میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دو اہم رہنما اور 100 کے قریب جنگجوؤں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد‘ جن میں طالبان کے ساتھ غیرملکی فوجوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں کے علاوہ چار ہزار کے قریب وہ جنگجو بھی شامل تھے جنہیں کابل پر قبضے کے بعد سابق صدر اشرف غنی کی قید سے رہائی ملی تھی‘ چپکے سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں گھس آئی تھی۔
ان جنگجوئوں نے قبائلی علاقوں میں داخل ہوتے ہی خوف و ہراس‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی کارروائیاں شروع کر دیں جن کے خلاف سوات‘ باجوڑ‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مقامی سیاسی پارٹیوں‘ سول سوسائٹی کے اراکین‘ تاجروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے پہلے تو دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو پلے ڈائون کرنے کی کوشش کی اور پھر ان کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی۔ وفاقی حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک طرف تو ملک میں اس مسئلے پر متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری طرف افغانستان کی عبوری حکومت کے تعاون کو اس مسئلے کے تسلی بخش اور دیرپا حل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالات میں کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے یہ ایک دانش مندانہ پالیسی ہے۔