پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی حکومت کو جب قبل از وقت عام انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تو ملک بھر کے تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ یہ خان صاحب کا آخری آپشن ہے اور اس کے بعد ان کے پاس کوئی اقدام باقی نہیں رہ جائے گا‘ لیکن اس اقدام سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابھی میرے پاس بہت سے آپشنز ہیں۔ تب لوگوں نے سوچا کہ خان صاحب تو کئی سیاسی چالیں چل چکے‘ اب کیا باقی رہ گیا ہے لیکن عمران خان نے ایک ہفتہ قبل اُس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا۔ عمران خان نے جو کہا تھا کہ ابھی میرے پاس بہت سے آپشنز ہیں‘ تو لوگوں نے جانا کہ جیل بھرو تحریک ان میں سے ایک آپشن ہے‘ جس کیلئے سابق وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو تیار رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جیل بھرو تحریک برِصغیر کی تاریخ میں کوئی نیا حربہ نہیں ہے۔ آزادی سے قبل مہاتما گاندھی اور آزادی کے بعد 2011ء میں مشہور سماجی کارکن اَنا ہزارے نے اسے بھارت میں استعمال کیا تھا۔ وہ کامیاب ہوئے یا ناکام یہ ایک الگ بات ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب نے غالباً ان دونوں رہنمائوں سے انسپائر ہو کر ہی موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف اس تحریک کا فیصلہ کیا اور جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کیا ‘ لیکن جس سیاق و سباق میں گاندھی جی اور اَنا ہزارے نے اس حربے کا استعمال کیا‘ اور کامیابی حاصل کی‘ وہ پاکستان میں آج کے حالات سے مختلف تھا۔ گاندھی جی نے ہندوستان پر ایک غیرملکی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد شروع کر رکھی تھی۔ جیل بھرو تحریک اس جدوجہد کا حصہ تھی۔ اَنا ہزارے کی تحریک کی بنیاد بھارت میں وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت سے کرپشن کے خلاف ایک خود مختار کمیشن کے قیام کا مطالبہ تھا۔ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کا تعلق اگرچہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کا ان کی آئینی مدت کے اندر انعقاد کے اعلان سے ہے لیکن اس کا اصل مقصد وفاقی حکومت کو فوری طور پر قومی انتخابات پر مجبور کرنا ہے‘ جن میں عمران خان کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی کیونکہ پچھلے کئی ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ خان صاحب اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے سول نافرمانی کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ 2014ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کیلئے عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد تک ''آزادی مارچ‘‘ اور پھر وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیا جو 126 روز تک جاری رہا۔ جب ''آزادی مارچ‘‘ اور دھرنے کے باوجود نواز شریف ٹس سے مس نہ ہوئے اور ان کی حکومت قائم رہی تو خان صاحب نے پاکستانی شہریوں کو حکومت کے خلاف سول نافرمانی پر اکساتے ہوئے کہا کہ گیس‘ بجلی اور پانی کے بلوں کی ادائیگی بند کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سمندر پار کام کرنے والے پاکستانیوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی قانون کے مطابق بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے وطن بھیجیں‘ جو ایک غیرقانونی طریقہ ہے لیکن عوام اور اوورسیز پاکستانیوں نے خان صاحب کی اس اپیل پر کان نہ دھرا۔ اسی طرح اپریل 2022ء میں اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کو فوری طور پر عام انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی نے مئی اور اس کے بعد اکتوبر 2022ء میں لانگ مارچ کا اہتمام کیا تھا‘ لیکن دونوں مواقع پر وہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہے‘ حالانکہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عوام کا ایک سمندر اسلام آباد کی طرف اُمڈ آئے گا‘ جس کے راستے میں کوئی رکاوٹ ٹھہر نہ پائے گی اور حکومت کے وزیروں اور مشیروں کو چھپنے کیلئے جگہ نہیں ملے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 26 مئی کو عمران خان اپنے مارچ کو ختم کرکے اسلام آباد سے اچانک لاہورآ گئے تھے‘ اور 28اکتوبر 2022ء کو لاہور سے روانہ ہونے والا لانگ مارچ 26نومبر کو اسلام آباد سے ذرا اِدھر پہنچ کر عمران خان کے اس اعلان پر اختتام پذیر ہوا کہ وہ حکومت کو عام انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کر رہے ہیں۔
مئی اور اس کے بعد اکتوبر‘ نومبر کے لانگ مارچز کی ناکامی کی بڑی وجہ توقع کے برعکس شرکا کی کم تعداد تھی جسے اسلام آباد میں حکومت کی مقرر کردہ ریڈ لائن عبور کرنے کی صورت میں ہینڈل کرنا مشکل نہیں تھا‘ حالانکہ عمران خان نے نہ صرف پی ٹی آئی کے حامیوں بلکہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو بھی لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی تھی کیونکہ ان کے مطابق ان مارچز کا مقصد پوری قوم کیلئے آزادی کا حصول تھا‘ لیکن دونوں دفعہ اسلام آباد پہنچنے تک عمران خان کی قیادت میں رواں دواں مارچ میں صرف وہ لوگ رہ گئے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد عمران خان کو اپنے جلسوں میں عوام کی تعداد کے پیش نظر قوی امید تھی کہ لانگ مارچز میں بھی زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ملک کے کونے کونے سے شریک ہوں گے اور حکومت ان کے دبائو کے تحت عام انتخابات کے انعقاد پر مجبور ہو جائے گی‘ لیکن یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ دوسری دفعہ لانگ مارچ (اکتوبر) پوری تیاریوں اور پہلے لانگ مارچ (مئی) کی ناکامی کے اسباب کو مدِنظر رکھتے ہوئے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نے دوسرے مارچ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے 60 سے زیادہ جلسے کیے تھے۔ ان جلسوں میں عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ میں شرکت پر زور دیا جاتا رہا اور اپنے سپورٹرز سے اس میں شرکت کا حلف بھی لیا گیا۔ سرکاری ملازمین کے فیملی ممبرز سے اپیل کی گئی کہ وہ بھی اس مارچ میں شریک ہوں‘ لیکن اس کے باوجود دونوں مارچز اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ناکام رہے۔
قومی اسمبلی کی رکنیت سے اجتماعی استعفوں سے بڑے بڑے ملک گیر جلسوں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل تک سابق وزیراعظم عمران خان کے اب تک تمام آپشنز اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جیل بھرو تحریک کا بھی وہی انجام ہوگا جو ان مارچز کا ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پتاتک نہیں ہلے گا‘ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی اور ملک گیر سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے کارکن پاکستان کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ اس لیے اگر تحریک شروع کرنے کی نوبت آتی ہے تو کارکنوں کی ایک تعداد کہیں کم کہیں زیادہ‘ رضا کارانہ طور پر جیل جانے کیلئے تیار ہو گی‘ مگر یہ سب پی ٹی آئی کے سکہ بند کارکن ہوں گے۔ میرے خیال میں عام آدمی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اس لیے جس طرح پہلے آپریشنز زور و شور سے شروع کرنے کے باوجود بے نتیجہ رہے‘ عمران خان کی جیل بھرو تحریک بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے گی کیونکہ اسے عوام کے دیگر طبقات کی حمایت حاصل نہیں ہوگی جو کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے ضروری ہوتی ہے۔