کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ صدیوں سے چلے آنے والے اس مقولے کے ساتھ جرمنی کے مشہور سٹریٹیجک تھنکر اور ملٹری سائنس کے ماہر کلازوٹز (carl von clausewitz) کے اس بیان کو بھی اگر نتھی کر لیا جائے کہ جنگ سیاست کا دوسرا نام ہے‘ تو دونوں کا مقصد ایک ہی ہے البتہ مقصد کے حصول کیلئے جو ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں‘ وہ مختلف ہیں۔
سیاست‘ جسے اقتدار کی جنگ بھی کہا جا سکتا ہے‘اس میں بھی جنگ کی طرح مقصد (اقتدار) حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے‘ جن میں جھوٹ‘ مکاری‘ لفظوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا‘ بے بنیاد الزام عائد کرنا اور بے سر و پا دعوے کرنا شامل ہے‘ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ جنگ کی طرح سیاست میں بھی سولہویں اور سترہویں صدی کے ان روایتی نظریات میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور جنگ کی طرح سیاست کو بھی متعلقہ قوانین اور ضابطوں کا پابند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر دنیا کے ہر ملک میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ریاست اور سیاست کو انگریز مفکر تھامس ہابز (Thomas Hobbes) کے افکار کے تابع سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جاری سیاسی دنگل کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔
تقریباً ایک ہفتہ پیشتر وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ حکومت قوم کے ان قیمتی اثاثوں کی پوری توجہ اور ذمہ داری سے حفاظت کر رہی ہے۔ اسی دن سینیٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سینیٹر رضا ربانی کے ایک سوال کے جواب میں ایک بیان دیا جس میں وزیر اعظم آفس سے جاری کردہ پریس ریلیز میں اختیار کردہ موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت ملک کے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔رضا ربانی نے اپنے سوال میں پوچھا تھا کہ کیا پاکستان کو آئی ایم ایف یا انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی طرف سے کسی دباؤ کا سامنا ہے؟
یہ سوال کچھ عرصہ پیشتر آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کے دورہ پاکستان اور آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 2019ء میں طے کیے ہوئے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت آخری قسط جاری کرنے میں تاخیر سے پیدا ہونے والی قیاس آرائیوں کی روشنی میں پوچھا گیا تھا؛تاہم پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے 19 مارچ کو ایک بیان میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف سے اس مسئلے پر ایک پالیسی بیان جاری کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پارلیمنٹ میں اِن کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کر کے اراکین کو اعتماد میں لیں۔
اس سیاسی بحث میں پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی حصہ ڈالا اور یہ دعویٰ کیا کہ ملک کے موجودہ بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے بارے میں سوال اٹھا رہا ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اس کی واضح تردید کرتے ہوئے ایٹمی اور میزائل پروگرام میں کسی بیرونی مداخلت اور دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ عمران خان کی پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل پروگرام پر ملک کے 22 کروڑ عوام میں ایک ہی رائے پائی جاتی ہے اور پاکستان کی کوئی حکومت اس پر سمجھوتے یا کسی بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین سے یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا جو ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اس حکومت کے مؤقف کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث بنے؟ حالانکہ پی ٹی ایم کی حکومت میں شامل دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک کے لیڈر نے پھانسی کے تختے پر چڑھنے تک اس کا دفاع کیا اور دوسرے نے امریکہ کے دباؤ کو رد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو ایک اعلانیہ ایٹمی طاقت کی حیثیت سے دنیا کو متعارف کروایا۔
ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر ایٹمی پروگرام کو متنازع بنانے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ ملک کے نیوکلیئر پروگرام پر جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے‘ مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ اس اتفاقِ رائے میں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں‘ پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے کسی سیاستدان نے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں آج تک ایسا بیان نہیں دیا جس کے نتیجے میں قومی اتفاقِ رائے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ خاص طور پر وہ سیاست دان جو اپنے کیریئر میں وزیر اعظم جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس قسم کے بیانات جن کی وجہ سے ان کے ساتھی سیاستدان یا کسی اعلیٰ عہدے دار کے بارے میں بدگمانی یا شکوک و شبہات پیدا ہوں‘ سے احتراز کریں تو ملک کی سلامتی اور تحفظ کیلئے بہتر ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انہیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے بجائے اپنے گروہی‘ سیاسی اور ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔
1986ء میں ملک کی دو دفعہ وزیر اعظم رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب امریکہ سے وطن واپس آنے کا اعلان کیا تو پاکستان میں ایک مخصوص لابی نے حکومتی ایما پر پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو ضیا الحق کے خلاف لانچ کرنے کیلئے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا اصل ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے‘ جس کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کو اطلاعات مل چکی تھیں کہ وہ تکمیل کے آخری مراحل طے کرنے کے بعد ایٹمی دھماکا کرنے کے قابل ہو چکا ہے‘ بلکہ پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ڈِس کریڈٹ کرنے کیلئے افواہیں پھیلائی گئیں کہ امریکیوں نے انہیں پاکستان کے خفیہ ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے‘ رول بیک کرنے یا کیپ (Cap) کرنے پر راضی کر لیا ہے‘ مگر پاکستان کیلئے عازم سفر ہوتے وقت نیو یارک کے ہوائی اڈے پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بے نظیر بھٹو نے ایک امریکی صحافی کے سوال پر ایسا جواب دیا کہ یہ سب افواہیں دم توڑ گئیں اور امریکی میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ واشنگٹن کو ایٹمی پروگرام کے بارے میں بے نظیر بھٹو سے امید نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ جنرل ضیا کی پالیسی سے الگ پوزیشن لیں گی۔
افسوس کا مقام ہے کہ جب ہماری سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں نے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور نگرانی پر ایک جیسا مؤقف اختیار کیا تو ان کے بارے میں بد گمانی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور موقع پرستی کی بد ترین مثال ہے۔