اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد ملک سے امریکی اور نیٹو فورسز تو چلی گئیں مگر اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے موجود رہے۔ ان اداروں کا کام افغانستان کی تقریباً ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل انتہائی غریب آبادی کو صحت‘ تعلیم‘ خوراک‘ رہائش اور بیروزگار ہونے کی صورت میں نقد رقم کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کے ضرورت مند اور محتاج لوگوں میں امداد کی تقسیم کا جال ملک کے تمام (34) صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے افغانستان کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال تقریباً 77لاکھ افغان باشندے اقوامِ متحدہ کی اس امدادی سکیم سے مستفید ہوئے۔ ان میں 30لاکھ عورتیں اور لڑکیاں بھی شامل ہیں لیکن اقوامِ متحدہ اور اس کے ہمراہ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی دیگر قومی اور بین الاقوامی نان گورنمنٹ تنظیموں کی ان سرگرمیوں کو جاری رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان کے موجودہ حکمران طالبان کی طرف سے خواتین پر پرائمری اور ثانوی تعلیم سے آگے پابندی اور دفتروں میں ملازمت کی ممانعت کے اقدامات ہیں۔ ان دفتروں میں اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے دفاتر بھی شامل ہیں جہاں افغان عورتوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کام کرکے ملک کی موجودہ بدترین صورت حال میں اپنے کنبوں کی امداد کرتی ہیں۔ چونکہ اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں میں افغان خواتین پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے‘ اس لیے اس کی طرف سے طالبان کے اس اقدام کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔ سلامتی کونسل کے ایک حالیہ اجلاس میں مستقل اور غیرمستقل تمام ممبران نے متفقہ طور پر اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے طالبان سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ازبکستان کے شہر سمرقند میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک (پاکستان‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان) کے علاوہ روس اور چین کی ایک حالیہ کانفرنس میں بھی ایک مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان میں عورتوں اور خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں افغان طالبان کی حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شریک تھے۔ افغانستان میں حکمران طالبان حکومت اور اس کے اراکین پر اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے سفری پابندیاں عائد ہیں مگر افغان وزیر خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کو ممکن بنانے کے لیے ان پابندیوں سے خصوصی استثنا حاصل کیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ افغان طالبان حکومت کے ایک اہم رکن کی موجودگی میں کانفرنس کے دیگر اراکین افغانستان کے مخدوش حالات کے پیشِ نظر افغان حکومت کو عورتوں کی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ کر سکیں مگر افغان طالبان کی حکومت نے صاف کہہ دیا ہے کہ عورتوں کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں‘ جن میں اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے تحت کام کرنے والے دفاتر بھی شامل ہیں‘ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور کسی کو اس میں مداخلت کا حق حاصل نہیں لیکن اقوامِ متحدہ کے حلقے اس تشویش میں مبتلا تھے کہ اگر طالبان اپنے موقف پر قائم رہے اور افغان خواتین پر ملازمت اور تعلیم کی پابندیاں برقرار رہیں تو ادارے کو افغانستان میں اپنی تمام سرگرمیاں بند کرنا پڑیں گی کیونکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے ضابطوں کے تحت ایسے ملکوں میں جہاں جنس کی بنیاد پر آبادی کے ایک بڑے حصے (عورتوں) کو ان کے بنیادی حقوق (تعلیم اور روزگار) سے محروم کیا جاتا ہو‘ اقوامِ متحدہ یا اس کا کوئی ذیلی ادارہ اپنی امدادی سرگرمیوں کو جاری نہیں رکھ سکتا اور اگر اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کو بھی بند کر دیا گیا تو افغانستان میں‘ جس کی آدھی سے زیادہ آبادی پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے رہ رہی ہے اور اپنی خوراک‘ علاج معالجے اور رہائشی سہولیات کے لیے اقوامِ متحدہ پر انحصار کرتی ہے‘ انسانی ابتلا کا ایک ایسا دور آئے گا جس میں ملک کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اس سلسلے میں بہت پریشان ہیں اور انہوں نے اس ممکنہ انسانی تباہی سے بچنے کے لیے ایک راستے کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر طالبان کی حکومت کو اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے بطور ایک جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز کیا جائے تو اس کے بدلے میں طالبان عورتوں اور اقلیتوں کے بارے میں اپنی سخت گیر پالیسیاں نرم کرنے اور آخر کار ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔اس مفروضے کا اظہار اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل امینہ جے محمد بھی اپنے ایک بیان میں کر چکی ہیں‘ بلکہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یکم اور دو مئی کو اقوامِ متحدہ کی جو کانفرنس منعقد ہو ئی تھی‘ اس کانفرنس سے قبل انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ اس کانفرنس میں اس مسئلے کے حل کا کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف لابی نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔ کابل میں خواتین کے ایک گروپ نے بھی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی تھی۔اس پر امریکہ‘ جو دوحہ کانفرنس میں شریک ہونے والے ممالک میں شامل تھا‘ کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ کانفرنس میں افغان طالبان حکومت کے کسی نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے سے قطع نظر‘ اس مسئلے کو زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا کیونکہ سوال صرف افغانستان میں انسانی بحران کا نہیں بلکہ افغانستان کے ارد گرد کے خطوں کی سیاست اور سکیورٹی پر پڑنے والے اثرات کا بھی ہے۔ اسی لیے سمرقند کانفرنس میں جہاں طالبان پر زور دیا گیا کہ اپنی انٹرنیشنل آئیسولیشن توڑنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اندرونی پالیسیاں اختیار کریں‘ وہاں بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ افغانستان کے ساتھ انٹرایکشن اور انگیجمنٹ میں اضافہ کرے۔
پاکستان کی وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ حنا ربانی کھر‘ جنہوں نے اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی‘ نے اپنی تقریر میں بین الاقوامی برادری کو افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات‘ روابط اور میل جول بڑھانے پر زور دیا تھا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بیرونی مداخلت‘ دبائو‘ دھمکی یا لالچ طالبان کو اپنی روش تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں طالبان کے ماضی قریب کے بعض مواقع پر رویے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس کی امید بہت کم ہے۔
بامیان میں مہاتما بدھ کے پندرہ سو سال پرانے مجسمے کو توڑنے سے باز رہنے اور اکتوبر 2001ء میں امریکہ کی طرف سے اسامہ بن لادن کو امریکی حکام کے حوالے کرنے سے انکار‘ اس ضمن میں دو بڑی مثالیں ہیں۔ ان دونوں مواقع پر طالبان کے مرحوم امیر ملا عمر کو اپنا مؤقف بدلنے کے لیے پاکستان نے بڑی کوشش کی تھی لیکن طالبان کی سابقہ حکومت اپنی ضد پر قائم رہی۔ طالبان کی موجودہ حکومت کو اگر کوئی اپنی پالیسیوں اور رویے میں تبدیلی پر مجبور کر سکتا ہے تو وہ اندرونی دباؤ ہے جو افغانستان کی سول سوسائٹی اور بد سے بدتر ہوتی معاشی صورتحال کی طرف سے آ سکتا ہے‘ لیکن طالبان کے لیے اس ضمن میں نرمی دکھانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ان کے نظریاتی حریف داعش اور دیگر انتہا پسند گروپ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔