تقریباً گیارہ برس تک اپنے اردگرد عرب ملکوں کی برادری سے کٹے رہنے کے بعد شام کو دوبارہ عرب لیگ میں اپنی نشست سنبھالنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ 2011ء میں عرب سپرنگ کے نام سے مشہور شمالی افریقہ (المغرب) اور مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک میں احتجاجی تحریک کے دوران 22ممالک پر مشتمل عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ شام کے صدر بشارالاسد پر الزام تھا کہ ملک میں آزادی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کے خلاف انہوں نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرکے اسے کچل دیا تھا۔ عرب لیگ کے اسی فیصلے کے بعد نہ صرف عرب ملکوں نے شام کے ساتھ اپنے سفارتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات ختم کر دیے بلکہ صدر بشار الاسد حکومت کی مخالف قوتوں کو مدد بھی فراہم کرنا شروع کردی۔ صدر بشارالاسد مخالف قوتوں میں داعش اور القاعدہ بھی شامل تھیں اور جن عرب ملکوں نے ان کی مالی اور عسکری لحاظ سے مدد کی‘ اُن میں سعودی عرب اور قطر بھی شامل تھے۔ شام کی اس خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف ترکی اور امریکہ بھی کود پڑے۔ ترکی کے اقدام کی وجہ یہ تھی کہ اسے شام میں مقیم کردوں کی تنظیم سے خطرہ تھا۔ اس لیے اس نے شام کے شمال میں اپنی سرحد سے ملنے والے ایک وسیع علاقے میں فوجیں داخل کرکے قبضہ کر لیا۔ امریکہ اور سعودی عرب صدر بشار الاسد کی حکومت کے اس وجہ سے مخالف تھے کیوں کہ انہوں نے ایران کیساتھ قریبی تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ 10سال سے زیادہ جاری رہنے والی اس خانہ جنگی میں شام کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کی آدھی سے زیادہ آبادی ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک خصوصاً ترکی اور یورپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔ اس خانہ جنگی میں‘ جوکہ باہر کی طاقتوں نے رجیم چینج کیلئے مسلط کر رکھی ہے‘ تقریباً 5لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ ملک کے کسی شہر میں کوئی عمارت‘ کارخانہ‘ پل اور سڑک تباہی سے نہیں بچی۔ اس وقت اگرچہ سرکاری فوجوں اور باغیوں کے درمیان لڑائی کے محاذ خاموش ہیں مگر شام کے اب بھی وسیع علاقوں پر حکومت مخالف گروپوں کا قبضہ ہے مگر صدر بشارالاسد کی حکومت برقرار ہے۔ اس میں انہیں روس اور ایران سے ملنے والی حمایت اور امداد کا بڑا کردار ہے۔ اُن کے خلاف سرگرم قوتوں امریکہ‘ داعش‘ القاعدہ وغیرہ کو اپنے عزائم میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور دس سال کے بعد سعودی عرب سمیت دیگر عرب ملکوں میں بھی یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش سے عرب ملکوں کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوششوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم نظریات کی حامل تنظیموں اور گروپوں کی طرف سے کی جا رہی تھیں۔ شام کی موجودہ حکومت کی جگہ وہ ایک متفقہ اور متبادل سیٹ اَپ پیش کرنے میں ناکام رہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ باغی قوتیں اور بیرونی مداخلت کار شام کے عوام کے کسی بھی حصے کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے اور تیسری وجہ یہ تھی کہ شام کی فوج متحد اور صدر بشار الاسد کی وفادار رہی۔ چین نے جم کر باغیوں اور بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ روس اور ایران کی طرف سے دی جانے والی امداد نے صدر بشار الاسد کو باغیوں کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت اور باہمی تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کے لیے سمجھوتے کے بعد شام کی عرب لیگ میں بحالی مشرقِ وسطیٰ میں دوسرا سب سے اہم واقعہ ہے۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ بنیادی تبدیلی کی ایک لہر سے گزر رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب اس کا پہلا اشارہ تھا۔ اب شام اور دیگر عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی دوسرا قدم ہے جس طرح ایران اور سعودی عرب کا معاہدہ امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کیلئے حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا‘ اسی طرح شام کی عرب لیگ میں واپسی بھی خطے میں امریکی پالیسی کی ایک شکست ہے کیوں کہ ایران کی طرح شام بھی اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ مشرق میں بحیرۂ روم کے ساتھ 120میل لمبے ساحل کے علاوہ شام کی سرحدیں شمال مغرب اور جنوب میں ترکی‘ عراق‘ اردن‘ لبنان اور اسرائیل کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہونے کی وجہ سے شام کے اندرونی حالات کا ان ملکوں اور ان ملکوں میں ہونے والے واقعات اور پالیسیوں کا شام کے مفادات پر اثر پڑتا ہے۔ تاریخی طور پر شام نے مشرقِ وسطیٰ میں تہذیب و تمدن‘ پولیٹکل فلاسفی اور جنگ و امن کے معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہنری کسنجر کا مشہور قول ہے کہ ''مشرقِ وسطیٰ میں جنگ مصر کے بغیر نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں‘‘۔ اس کا پس منظر شام کا جغرافیائی محل وقوع اور عرب دنیا خصوصاً جدید دور میں مصر کی عسکری قیادت کے متوازی انٹلیکچوئل لیڈر شپ کے ذریعے عرب قوم پرستی اور بعث پارٹی کے سوشلسٹ نظریے کی بنیاد رکھنے میں شام کا کردار شامل ہے۔
شام کی عرب لیگ میں نشست کو بحال کرنے کا فیصلہ عرب لیگ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک کانفرنس میں متفقہ طور پر کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ اس موقع پر عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوال غایت (Ahmed Aboul Gheit) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 10سال سے زیادہ عرصے تک غیر حاضر رہنے کے بعد عرب لیگ میں واپسی اور عرب دنیا کے موجودہ معاملات میں تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنے کیلئے شام پر یہ فیصلہ پہلا قدم ہے اور ابھی بہت سے ایسے امور باقی ہیں جن کو طے کرنے کے لیے شام کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ قاہرہ کے اجلاس میں شامل عرب وزرائے خارجہ نے اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی بھی سفارش کی ہے جو شام کے ساتھ ان امور میں سکیورٹی‘ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہر سے آنے والی امداد کی منصفانہ اور بلاتخصیص تقسیم‘ منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام‘ گھر بار چھوڑ کر چلے جانے والے شامی باشندوں کی واپسی اور ان کی بحالی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی شام کے حکام کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی یہ ابتدا ہے اور شام کو عرب دنیا کا ایک دفعہ پھر فنکشنل پارٹ بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ وزرائے خارجہ کے فیصلے کے بعد شام فوری طور پر عرب لیگ میں اپنی نشست سنبھال سکتا ہے اور اس کے اجلاس میں شرکت کر سکتا ہے تاہم جن ممالک نے 2011ء میں عرب لیگ کے فیصلے کے تحت شام سے سفارتی تعلقات منقطع کیے تھے‘ ان کی بحالی کا فیصلہ ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ ان ریمارکس کا پس منظر یہ ہے کہ چند عرب ممالک ابھی ایسے ہیں جو شام کیساتھ فوری طور پر مکمل تعلقات بحال کرنے پر تحفظات رکھتے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ شام کی طویل خانہ جنگی سے پیدا ہونیوالے مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہے خود شام کے اندر صدر بشارالاسد کی حکومت اور باغیوں کے درمیان ابھی جنگ بندی کی صور تحال ہے جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے اور ملک ایک دفعہ پھر خونریز تصادم کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے شام کے سیاسی مسئلے کا حل تلاش کرنا بھی ضروری ہے مگر عرب ممالک کی بیشتر تعداد جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے‘ کی طرف سے شام کی واپسی پر خوشی کا اظہار اس بات کا اشارہ ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت عرب دنیا کے معاملات میں ایک دفعہ پھر بھرپور کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔