1991ء میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو اس سے الگ ہو کر آزادی کا اعلان کرنے والی پندرہ ریاستوں میں سے پانچ وسطی ایشیائی ریاستیں (قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان) بھی شامل تھیں۔ ان کی ہمسائیگی میں واقع دو بڑے ملکوں روس اور چین کو فوراً یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اس عظیم تبدیلی سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ان کا سب سے بڑا حریف ملک امریکہ خطے میں نہ گھس آئے۔ اُن کے خدشات بے جا نہیں تھے۔ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کی حمایت سے مشرقی یورپ اور بحیرۂ بالٹک کی ریاستوں کو یورپی یونین اور نیٹو کا رکن بنانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ وسطی ایشیا اپنے دو بڑے ہمسایہ ممالک چین اور رشین فیڈریشن یعنی روس کے درمیان گھرا ہوا ایک ایسا خطہ تھا جو نہ صرف اپنے جغرافیائی محل وقوع بلکہ تیل‘ گیس‘ یورینیم اور دیگر قیمتی دھاتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے جیو پولیٹکل لحاظ سے دنیا میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ اسے روس یا چین دونوں میں سے کسی ایک کے حلقۂ اثر میں جانے سے روکنے کے لیے امریکہ نے وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کے ساتھ فوراً رابطہ قائم کیا اور انہیں مالی امداد کی پیش کش کی مگر روس اور چین کے لیے اس خطے میں امریکی اثر و رسوخ کی آمد خطرے سے خالی نہ تھی۔
ان ریاستوں نے گوکہ روس سے الگ ہو کر آزادی کا اعلان کر رکھا تھا مگر تجارت اور ذرائع آمد و رفت کے اعتبار سے یہ خطہ اب بھی مشرق (چین) اور جنوب (مشرق وسطیٰ) کے مقابلے میں روس کے ساتھ زیادہ جڑا ہوا تھا۔ چین کے لیے وسطی ایشیا کا خطہ نہ صرف توانائی (تیل اور گیس) کی سپلائی کی وجہ سے اہم تھا بلکہ اس کی سرحدیں اس کے مغربی صوبوں مثلاً سنکیانگ سے ملتی تھیں۔ اس میں چین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھنے والے امریکہ جیسے ملک کے اثر و رسوخ کی موجودگی میں چین کے قومی سکیورٹی مفادات کے لیے گہرے خطرات پنہاں تھے۔ وسطی ایشیا میں روس‘ چین اور امریکہ کے درمیان اثر و رسوخ کے حصول کے لیے اس طرح شروع ہونے والی کشمکش کے پس منظر میں شنگھائی تعاون تنظیم نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد 1996ء میں چین کے شہر شنگھائی میں رکھی گئی اور اس موقع پر روس اور چین کے علاوہ وسطی ایشیا کے تین ریاستوں قازقستان‘ کرغزستان، تاجکستان‘ یعنی پانچ ملکوں کے رہنما موجود تھے۔ اس نسبت سے اسے شنگھائی فائیو کا نام دیا گیا۔ اس کے مقاصد میں باہمی تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ توانائی‘ سرمایہ کاری‘ بینکنگ اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا تھا مگر سب سے زیادہ فوکس سکیورٹی پر تھا کیونکہ سوویت یونین کی تحلیل اور ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکری گروپوں کے درمیان خانہ جنگی اور اس خانہ جنگی میں طالبان کے ظہور نے پورے خطے کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ خاص طور پر وسطی ایشیا کی ریاستوں کو داخلی اور بیرونی محاذ پر سکیورٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان میں انتہا پسند مذہبی تنظیمیں‘ علیحدگی پسند گروپ اور دہشت گرد جماعتوں کی سرگرمیاں نمایاں طور پر شامل تھیں۔
جس سال یعنی 1996ء میں شنگھائی فائیو کی بنیاد رکھی گئی‘ اسی سال افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت قائم ہوئی جس کے سربراہ ملا عمر تھے۔ طالبان کی موجودہ حکومت کے برعکس 1996ء سے 2001ء تک کابل میں حکمران طالبان حکومت اپنے سخت گیر نظام کو ہمسایہ ممالک میں بھی نافذ ہوتا دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے چین‘ ازبکستان اور تاجکستان میں سرگرم انتہا پسند تنظیموں کو اپنے ہاں تربیتی کیمپ اور پناہ گاہیں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اس کی بنا پر نہ صرف چین اور وسطی ایشیائی ریاستیں بلکہ روس بھی افغانستان کی صورت حال کو اپنی قومی سلامتی کے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا تھا کیونکہ افغانستان منشیات کی سمگلنگ کا ایک بہت بڑا اڈہ بن چکا تھا۔ افغانستان کی ابتر صورت حال کی وجہ سے منشیات اور دیگر اشیا کی سمگلنگ کو روکنا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ 2001ء میں ازبکستان‘ جس کی افغانستان کے ساتھ ایک لمبی سرحد لگتی ہے‘ بھی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا مستقل رکن بن گیا۔ اس سے اس تنظیم کے مستقل ارکان کی تعداد 6ہو گئی۔ یعنی وسطی ایشیا کی چار (قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان) ریاستیں اور روس اور چین۔ اس کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنی مستقل رکنیت کی تعداد میں اضافہ کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ تنظیم اپنے سائز کو وسعت دینے سے پہلے کور (Core) گروپ یعنی قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان پر فوکس کرکے ترقیاتی کام کی رفتار کو تیز کرنا چاہتی تھی تاکہ امریکہ کی طرف سے ان ممالک میں قدم جمانے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
وسطی ایشیا کے اس اہم خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے روس‘ چین اور امریکہ کے درمیان ایک عرصہ سے جاری رہنے والی اس کشمکش میں بالآخر چین کا پلڑا بھاری نظر آ رہا تھا۔ اس نے روس اور امریکہ دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ چین کی اس کامیابی میں متعدد عوامل کارفرما تھے۔ ان میں سے ایک چین کی طرف سے ان ملکوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بلاسود یا بہت ہی کم ریٹ پر قرضوں کی صورت میں سرمایہ کاری تھی۔ اس سے چین کو دُہرا فائدہ ہوا۔ ایک تو وسطی ایشیائی ریاستوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا اور دوسرا چین کو ان ملکوں سے تیل اور گیس کی درآمد میں آسانی ہو گئی۔ روس اور امریکہ دونوں یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ روس کے پاس سرمایہ کاری کے لیے سرمایہ نہیں تھا اور امریکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کی ترقی اور پیداوار کو بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ چین نے ایک سافٹ سٹیٹ کی حیثیت سے وسطی ایشیا کی ریاستوں میں عمومی سطح پر رابطوں اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینا شروع کیا۔ امریکہ اور روس کے مقابلے میں وسطی ایشیائی ملکوں کے عوام کے ساتھ چینیوں کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ وسطی ایشیائی ریاستیں اگرچہ تقریباً ڈیڑھ سو برس‘ جن میں سوویت یونین کے 70سال بھی شامل ہیں‘ تک روس کا حصہ رہیں اور بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین سے علیحدگی اور آزادی کے باوجود مواصلاتی لحاظ سے روس سے زیادہ منسلک ہیں مگر روس اب بھی ان ریاستوں کو نوآبادیاتی نظر سے دیکھتا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کی طرف سے امداد کو وسطی ایشیائی ریاستیں ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتی تھیں کیونکہ اس امداد کے پیچھے امریکہ کے سٹرٹیجک مفادات نظر آ رہے تھے۔ ان دونوں کے مقابلے میں چین کی پالیسی کا فوکس مختلف شعبوں مثلاً انفراسٹرکچر جن میں تیل اور گیس کی پائپ لائنز اور سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کے شعبے بھی شامل تھے‘ میں سرمایہ کاری پر تھا۔ اس کے علاوہ چین کا کوئی نوآبادیاتی اور سامراجی پس منظر نہیں تھا۔ اس لیے روس اور امریکہ کے مقابلے میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے عوام‘ تاجر اور کاروباری طبقہ چین پر زیادہ اعتماد کر سکتا تھا۔ (جاری)