گزشتہ برس اپریل میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی اور اس کے نتیجے میں عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد سے اب تک پاکستان جس بحران میں گھرا چلا آ رہا ہے‘ اس کے حل کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ‘بلکہ یہ بحران روز بروز پیچیدہ اور خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ حالانکہ آغاز میں معاملہ سیدھا سادھا اور معمول کے مطابق تھا۔ ہر پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن گورنمنٹ اِن ویٹنگ ہوتی ہے‘ یعنی حکمران پارٹی اگر اپنی نااہلی‘ غلطیوں‘ لغزشوں اور ناکامیوں کی وجہ سے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کے اراکین‘ جن میں حکومتی پارٹی کے اراکین بھی شامل ہو سکتے ہیں‘ کا اعتماد کھو بیٹھتی ہے تو اپوزیشن کو آئین یہ حق دیتا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس حکومت کو اقتدار سے ہٹا دے اور اس کی جگہ خود حکومت بنا لے۔
ہر پارلیمانی جمہوریت میں اس عمل کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں‘ جہاں پاکستان کی طرح پارلیمانی جمہوریت رائج ہے‘ یہ عمل بیس سے زیادہ دفعہ دہرایا جا چکا ہے۔ برسر اقتدار حکومتوں کے خلاف تحاریکِ عدم اعتماد پیش ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ کامیاب ہوتی ہیں اور کبھی ناکام۔ پاکستان میں 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد سب سے پہلی تحریک عدم اعتماد 1989ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی طرف سے پیش کی گئی تھی جو ناکام رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے چند ماہ بعد اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے جنرل ضیا الحق کے دور کی بدنامِ زمانہ آئینی ترمیم (آٹھویں) کے تحت آئین میں شامل کی گئی ایک شق 58-2B کو استعمال کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
9اپریل 2022ء کو عمران خان کی سرکردگی میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف پیش ہونے والی دوسری تحریک عدم اعتماد تھی جو کامیاب رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی طرح عمران خان کی حکومت بھی ایک مخلوط حکومت تھی کیونکہ 1988ء کے انتخابات کی طرح 2018ء کے انتخابات میں بھی کوئی پارٹی قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکتی۔ اس لیے دونوں مواقع پہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کو اسمبلی میں موجود چھوٹی پارٹیوں‘ گروپوں یا آزاد اراکین کو اپنے ساتھ شامل کرکے حکومت بنانا پڑی۔
2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی باقی تمام پارٹیوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی مگر اتنی سیٹیں حاصل نہ کر سکی تھی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکتی۔ اس لیے اسے اسمبلی میں دوسری سیاسی پارٹیوں اور آزاد اراکینِ اسمبلی کا سہارا لینا پڑا۔ اس طرح وزیراعظم عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت کا اقتدار میں رہنے کا دارومدار اس کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل دیگر چھوٹی پارٹیوں اور گروپوں کی حمایت پر مبنی تھا یعنی عمران خان کی حکومت کسی وقت بھی گر سکتی تھی۔
اس بات کا علم اپوزیشن پارٹیوں کو بھی تھا جنہوں نے اس لمحے کے انتظار میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک سیاسی اتحاد تشکیل دے رکھا تھا۔ اس اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دو سب سے بڑی پارٹیاں تھیں۔ موخرالذکر یعنی پی پی پی اتحاد کے قیام کے فوراً بعد پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے حق میں تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) اس کے لیے تیار نہ تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ عمران خان حکومت کی اتحادی پارٹیاں‘ مخلوط حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھیں اور نہ پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں کوئی انتشار تھا تاہم جب اسے یقین ہو گیا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ تعداد میں اسمبلی اراکین کے ووٹ دستیاب ہوں گے تو تحریک پیش کر دی گئی جس پر نو اور دس اپریل کی رات کو ووٹنگ ہوئی۔ اس ووٹنگ میں حکمران پارٹی یعنی پی ٹی آئی کو شکست ہوئی‘ یوں وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور ان کی جگہ پی ڈی ایم کے نامزد امیدوار قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پی ایم ایل این کے صدر‘ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔
یہ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوا۔ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم اور ان کی پارٹی نے تاہم الزام عائد کیا کہ پی ڈی ایم نے اپنی کامیابی کے لیے پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی کے ووٹ خریدے ہیں مگر ان کے دعوے کی واضح نفی اس امر سے ہوتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران پی ٹی آئی کے کسی رکنِ اسمبلی نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت میں شامل دیگر پارٹیوں اور گروپوں کے ووٹوں کی مدد سے کامیابی حاصل کی لیکن سبکدوش ہونے والے وزیراعظم نے اس تبدیلی کو سازش قرار دیا اور اسے ناکام بنانے کے لیے جو اقدام فوری طور پر کیے‘ ان میں پی ٹی آئی اراکین ِاسمبلی کے ایوان سے اجتماعی استعفے بھی شامل تھے۔ جب چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم نے اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے کے لیے کہا تو ان میں سے بہت سے اراکین یہ قدم اٹھانے پر تیار نہ تھے اور ان میں سے بعض نے اس کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی‘ لیکن عمران خان نے دھمکی دی کہ اگر پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی استعفے نہیں دیں گے تو وہ اکیلے مستعفی ہو جائیں گے۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی‘ جن کی تعداد 70 سے زائد تھی‘ نے ایوان میں کھڑے ہو کر اپنی نشستیں چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
قومی اسمبلی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے اس مقدس ایوان کو کرپٹ نظام کا سمبل قرار دیا تھا جس کا وہ مزید حصہ نہیں رہنا چاہتے تھے‘ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ آج اس ایوان میں واپس اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے ہر جتن کر رہے ہیں۔ یہی الفاظ انہوں نے گزشتہ نومبر میں پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے موقع پر کہے تھے۔ اس موقع پر بھی ان کے فیصلے سے ان دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اختلاف کیا تھا۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کے صوبے کی اسمبلی کے 99 فیصد اراکین اسمبلی کی تحلیل کے خلاف ہیں مگر عمران خان ان کو تحلیل کرنے پر بضد رہے تھے کیونکہ ان کے بقول یہ اسمبلیاں بھی ملک کے کرپٹ نظام کی سمبل ہیں اور وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آج ان اسمبلیوں کے انتخابات ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ اصل میں عمران خان پہلے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے اور پھر ملک کے دو بڑے صوبوں میں حکومت چھوڑنے کے اقدامات کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور باقی دو صوبوں (سندھ اور بلوچستان) کی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد پر مجبور ہو جائے‘ لیکن ان کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی۔ سابق وزیر اعظم کے بیانیے میں بڑھتی ہوئی جارحیت اور غصے کا اظہار‘ جس نے اس ملک کے سیاسی بحران کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے‘ کی اصل وجہ عمران خان کی اُس حکمت عملی کی ناکامی ہے جس کی وجہ سے ان کی اقتدار میں واپسی مزید تاخیر اور غیر یقینی کا شکار ہو گئی ہے۔