اس میں کوئی شک نہیں کہ G20 (گروپ آف 20) کے تحت سری نگر (مقبوضہ کشمیر) میں منعقد ہونے والی سیاحت پر ایک میٹنگ میں کانفرنس کے تین اہم رکن ممالک چین‘ ترکیہ اور سعودی عرب کی عدم شرکت سے مسئلہ کشمیر پر بھارتی مؤقف کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ گزشتہ 75 برس سے بھارت عالمی برادری کو یقین دلاتا رہا ہے کہ دنیا میں مسئلہ کشمیر نام کی کوئی چیز نہیں اور اگر مسئلہ 1948ء میں پیدا ہوا تھا تو وہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ پر اس کے قبضے اور بھارت کے ساتھ الحاق سے ختم ہو چکا ہے۔ عالمی برادری کی آنکھوں میں مزید دھول جھونکنے کیلئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات اور کٹھ پتلی حکومت کے قیام کا بھی ڈھونگ رچایا۔ اس کٹھ پتلی حکومت سے ریاست کے الحاق کی توثیق کروا کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو بھارتی پارلیمنٹ سے دو دفعہ قراردادیں منظور کروا کر ریاست جموں و کشمیر کو دنیا کے سامنے بھارت کا اٹوٹ انگ بنا کر پیش کیا گیا۔
جہاں تک 1989 سے ریاست جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی اور اس تحریک میں ایک لاکھ سے زائد مجاہدین کی شہادت کا تعلق ہے‘ بھارت ان حریت پسند مجاہدین کو ''دہشت گرد‘‘ قرار دیتا ہے اور دنیا کو باور کروانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر کا اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ ''دہشت گردی‘‘ ہے جس کی ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈالتا ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں کی جائز اور قانونی جدوجہد کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت سے روکا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری بھول جائے کہ مسئلہ کشمیر نام کی کوئی چیز ہوا کرتی تھی‘ لیکن اپنی زبردست سفارتی کوششوں کے باوجود بھارت ان مقاصد میں ناکام رہا ہے۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے سرکردہ رہنما اٹل بہاری واجپائی کو 2003ء میں بھرے جلسے میں اعتراف کرنا پڑا کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا‘ اس کا تصفیہ نہ صرف باقی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں مستقل اور پائیدار امن کے قیام کیلئے ضروری ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے اس اعلان کے بعد مارچ 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ (Composit Dialogue) کی بنیاد پر دو طرفہ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو چار برس تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک آہستہ آہستہ کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن نومبر 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کو بہانہ بنا کر بھارت نے امن مذاکرات کے اس سلسلے کو معطل کر دیا۔
2014ء میں نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت کے قیامت کے بعد بھارت کا رویہ مزید سخت گیر ہو گیا‘ جو اگست 2019ء کے ایک طرفہ‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔ پانچ اگست 2019ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو حاصل محدود داخلی خود مختاری ختم کر کے اور ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد انتظامی طور پر اسے بھارت میں ضم کر کے سمجھ لیا کہ عالمی برادری کے ذہنوں میں مسئلہ کشمیر کی اگر کوئی موہوم سی یاد بھی باقی ہو گی تو وہ ختم ہو جائے گی۔ اس کو ٹیسٹ کرنے کیلئے مودی سرکاری نے اسی ہفتے پیر اور منگل کے روزسری نگر میںG20 کی سیاحتی کانفرنس منعقد کروائی۔ یاد رہے کہ G20 کی اس سال کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی ہے اور بھارت نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے G20 کا سیاحتی اجلاس سری نگر میں بلا لیا۔ اس اقدام سے بھارت ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنا چاہتا تھا اور اس پر عالمی برادری کے ایک اہم حصے کی مہر تصدیق ثبت کرنا چاہتا تھا مگر نریندر مودی کی یہ کوشش ناکام نظر آتی ہے۔
پاکستان کا مؤقف بڑا واضح اور سیدھا ہے کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اور اس کی متنازع حیثیت کو بھارت خود تسلیم کر چکا ہے ورنہ وہ پاکستان کے ساتھ اس پر مذاکرات کیوں کرتا؟ دوسرے‘ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو کشمیر پر بھارتی مؤقف کو درست تسلیم کرتا ہے اور اسے بھارت کا حصہ سمجھتا ہے۔ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں‘ جن میں امریکہ‘ روس‘ چین اور یورپی یونین شامل ہیں‘ کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ سمجھتی ہیں‘ جس کا حتمی حل تلاش کرنا ابھی باقی ہے۔ اسی لئے ان ممالک کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر اس مسئلے کو دو طرفہ اور پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ خود اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر یہ مسئلہ ابھی تک موجود ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گاہے بگاہے جنوبی ایشیا میں امن کی خاطر پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست مذاکرات بلکہ امن مذاکرات کو شروع کروانے کیلئے اپنی خدمات کی پیشکش کر چکے ہیں۔
5 اگست 2019ء کے اقدام کو دنیا کے کسی ملک نے حتمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ چین‘ جس کی سرحدیں لداخ سے لگتی ہیں‘اس اقدام کو یکطرفہ اور غیر قانونی قرار دے کر مسترد کر چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے اس واضح مؤقف اور پاکستان اور چین کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود بھارت نے یہ مہم جوئی کیوں کی؟
بھارت کے اندر اور بھارت سے باہر بعض ماہرین کی رائے میں ان اقدامات کے ذریعے بھارت کی حکمران پارٹی بی جے پی اگلے سال یعنی 2024ء میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ اس دفعہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو عام انتخابات میں سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کرناٹک کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور کانگرس کی کامیابی سے ہوا کے رُخ کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ متنازع علاقوں میں اس قسم کے اجلاس منعقد کر کے بھارت عالمی برادری کو باور کروانا چاہتا ہے کہ اس کے دو بڑے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ تسلی بخش تعلقات قائم ہیں کیونکہ کشمیر کے علاوہ نریندر مودی کی حکومت نے اروناچل پردیش جو کہ چین اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے‘ میں بھی G20 کانفرنس کے تحت ایک اجلاس کے انعقاد کا اہتمام کیا ہے۔
G20 جو کہ تیزی سے ترقی کرنے والے 20 ممالک کی تنظیم ہے‘ ہر سال اپنی سربراہی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد رکن ممالک کے حصے میں باری باری آتا ہے۔ اس سال یعنی 2023ء میں اس کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی ہے۔ اس کانفرنس کے ایجنڈا کے تین اہم مسائل پر بحث متوقع ہے۔ ان میں موسمی تغیرات(Climate Change) دہشت گردی اور عالمی وباؤں کی روک تھام اور ان کے اثرات کا جائزہ لینا شامل ہے۔
اس سال کانفرنس کے ایجنڈے کی ان تین آئٹمز (items) کے تحت تقریباً 200 کے قریب مختلف مگر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے موضوعات پر اجلاس منعقد ہوں گے۔ کانفرنس کا سربراہی اجلاس اس سال ستمبر میں نئی دہلی میں ہو گا مگر ایجنڈے میں شامل مسائل سے متعلقہ مختلف موضوعات پر اجلاس بھارت کے مختلف شہروں میں ہوں گے۔ اس قسم کا ایک اجلاس بھارت نے سری نگر میں منعقد کیا ہے مگر چین‘ ترکیہ اور سعودی عرب کی عدم شرکت نے اس اجلاس کی آڑ میں مودی کو اپنا مخصوص مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔