پاکستان کو تیزی سے بگڑتے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے جس چیز کی فوری ضرورت ہے اس پر تمام سٹیک ہولڈرز متفق نظر آتے ہیں۔ یہ چیز ڈائیلاگ (مذاکرات) ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم‘ جو ایک عرصے سے اپنے مخالف سیاست دانوں کو ''چور‘ ڈاکو اور این آر او کے متلاشی‘‘ قرار دے کر مذاکرات تو کجا انہیں ہاتھ ملانے کے قابل بھی نہیں سمجھتے تھے‘ نے بھی پچھلے دنوں حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی پارٹی کے اہم رہنمائوں پر مشتمل ایک مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔ حکومت کے بعض رہنما اگرچہ کہتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں‘ اس کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ نے امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹر ویو میں یہ کہہ کر کہ اگر چیئرمین تحریک انصاف خلوصِ نیت کے ساتھ مذاکرات کے خواہش مند ہیں‘ تو انہیں براہ راست وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کرنی چاہیے‘ مذاکرات کے امکان کی جانب اشارہ کر دیا ہے۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات کو لازمی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس عمر عطا بندیال بھی متعدد بار سیاست دانوں کو موجودہ بحران کے حل کے لیے باہمی مشاورت کا مشورہ دے چکے ہیں‘ مگر اب تک مذاکرات کے حوالے سے کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آتی۔ ایک خطرناک سیاسی ڈیڈ لاک بدستور قائم ہے اور سٹیک ہولڈرز اسے ختم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ سبھی اقرار کرتے ہیں کہ اس ڈیڈ لاک کے مزید جاری رہنے سے ملک کی معیشت اور سلامتی کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
اگر ہم فریقین کے موقف کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں تو اس سوال کا جواب آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ مذاکرات کے مسئلے پر وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے مطابق پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک کہ اس کے چیئرمین 9اور 10مئی کے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور قوم سے معافی نہیں مانگتے۔ وزیراعظم اور حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی ان واقعات‘ جن میں لاہور میں جناح ہاؤس پر حملہ اور ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگانا بھی شامل ہے‘ کے ذمہ دار ہیں۔ ان سب واقعات کی منصوبہ بندی چیئرمین پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں گرفتاری سے پہلے کی گئی تھی اور پنجاب پولیس کے آئی جی کی حالیہ پریس کانفرنس میں اعداد و شمار اور دیگر شواہد کی بنیاد پر بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ 9اور 10مئی کے واقعات اچانک رونما نہیں ہوئے تھے بلکہ خاص منصوبہ بندی کے تحت ہوئے تھے کیونکہ لاہور‘ پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں عسکری تنصیبات اور سرکاری و نجی املاک پر حملے ایک ساتھ ہوئے تھے۔ ان حملوں میں عسکری تنصیبات پر حملے اور تباہی یقیناً سب سے تشویشناک واقعات ہیں‘ جن کا افواجِ پاکستان نے نوٹس لے کر بلوائیوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کر رکھا ہے۔
حکومت کے نزدیک پی ٹی آئی اور اس کی قیادت اس وقت سخت دبائو میں ہے اور اس کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی اور ان کے لیے ایک ٹیم کا باقاعدہ اعلان دراصل اس دبائو سے باہر نکلنے کی ایک کوشش ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت‘ جسے تحریک انصاف کے چیئرمین نے پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا‘ بلکہ اسے ''چوروں‘ ڈاکوئوں اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ‘‘ قرار دے کر مختلف ذرائع سے اس کو رخصت کرنے کی کوشش کی ہے‘ پی ٹی آئی کو بیل آئوٹ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے خلاف درج مقدمات میں عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگانا پڑ رہے ہیں اور دوسری طرف مقتدرہ 9اور 10مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے پر مُصرہے۔ پی ٹی آئی کی صفوں سے جس تعداد میں پارٹی کارکن اور رہنما الگ ہو رہے ہیں‘ اس سے یقیناً پارٹی انتشار کا شکار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں حکومت کا مذاکرات پر مائل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے‘ مگر مذاکرات کے راستے میں یہ واحد رکاوٹ نہیں ہے۔
پی ٹی آئی والوں نے بھی حالیہ واقعات سے کچھ نہیں سیکھا اور وہ بدستور حکومت کو بائی پاس کر کے مقتدرہ سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے سیکرٹری جنرل حماد اظہر نے پارٹی کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل اور مذاکرات کی پیش کش پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی ان قوتوں سے مذاکرات کرے گی جن کے پاس فیصلہ سازی کے اختیارات ہیں‘ حکومت سے نہیں‘ کیونکہ یہ حکومت کٹھ پتلیوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں اوپر سے مسلط کیا گیا ہے‘‘۔ حماد اظہر کو یاد ہونا چاہیے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعدایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران دو اصولوں کو اولین ترجیح دیں گے‘ ایک یہ کہ آئین کی پاسداری جس کا اس وقت کے حالات کے تناظر میں مطلب سیاسی معاملات میں عدم مداخلت ہے اور دوسرا پاک فوج کی عزت و وقار اور مقام کا ہر قیمت پر تحفظ۔ 9اور 10مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنمائوں نے عسکری تنصیبات‘ شہدا کی یادگاروں پر حملے کرکے فوج کی عزت وقار کو جو نقصان پہنچایا ہے‘ ان کے ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی مہم جاری ہے اور جاری رہے گی۔
پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کی کوئی پیش کش یا اشارہ اس کارروائی کو ٹال نہیں سکتا۔ اسی طرح فروری 2021ء میں سیاسی معاملات میں عدم مداخلت اور غیر جانب داری کے فیصلے پر بھی عسکری قیادت سختی سے کاربند رہے گی۔ مقتدرہ سے اگر چیئرمین تحریک انصاف یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حکومت سے بالاتر ہو کر اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرے گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ پی ٹی آئی اگر مذاکرات پر تیار ہے تو اسے حکومت سے مذاکرات کرنا پڑیں گے لیکن جیسا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ مذاکرات محض آئندہ انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ملکی سیاست کی آئندہ ڈگر‘ جس میں سول اور عسکری اداروں کے کردار کا آئین کے مطابق تعین کا عہد بھی شامل ہے‘ کا فیصلہ ان مذاکرات کا مقصد ہونا چاہیے‘ اس کے لیے ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اگر انتخابات کروا بھی لیے جائیں تو ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ دیگر الفاظ میں تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کے درمیان ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب تمام سٹیک ہولڈرز ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کریں اور مستقبل میں انہیں نہ دہرانے کا عہد کریں۔ اس عمل جسے ٹروتھ اینڈ ری کانسیلی ایشن کمیشن بھی کہا جاتا ہے‘ کے بغیر سیاست میں مستقل اور دیرپا امن و استحکام نہیں آ سکتا۔