وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 6.5 بلین ڈالر کے قرضے میں سے باقی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کے پیچھے جیو پولیٹکل محرکات کارفرما ہیں‘ نہ مکمل طور پر صحیح ہے اور نہ مکمل طور پر غلط‘ کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام میں 2019ء میں داخل ہوا تھا اور وزیر خزانہ جن جیو پولیٹکل محرکات کا ذکر کر رہے ہیں‘ وہ 2019ء میں بھی موجود تھے۔ اگر آئی ایم ایف کے ہاتھ ان جیو پولیٹکل محرکات سے بندھے ہوتے تو اس وقت بھی یہ عالمی مالیاتی ادارہ بطور قرضہ ایک خطیر رقم کے ساتھ پاکستان کی امداد کو نہ پہنچتا۔
پچھلی حکومت (پی ٹی آئی) نے جب تردد پر مبنی ایک لمبے عرصے کے بعد آخر کار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت بھی جیو پولیٹکل محرکات صاف نظر آتے تھے‘ لیکن آئی ایم ایف نے نہ صرف قرضے کے لیے پاکستان کی مدد کی درخواست قبول کر لی بلکہ معاہدے کے ایک سال بعد جب دنیا کے باقی ملکوں کی طرح پاکستان بھی کورونا جیسی عالمی وبا کا شکار ہوا تو عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی شرائط نرم کرتے ہوئے سابقہ حکومت کو ایسے معاشی اور مالیاتی اقدامات کی اجازت دی‘ جن کی معاہدے کی اصل شرائط کے تحت اجازت نہ تھی۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے بارے میں رویہ کلیتاً جیو پولیٹکل محرکات کے تابع ہے۔
واشنگٹن سے ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے حلقے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے بارے میں تاخیری رویہ جان بوجھ کر اپنایا ہے بلکہ آئی ایم ایف کی طرف سے متعدد ایسے مواقع کی نشان دہی کی گئی ہے جب پاکستان کو خصوصی طور پر مشکل سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے امداد فراہم کی گئی تھی۔ اسی طرح امریکہ نے بھی کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس نے سابقہ حکومت کے دوران آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو فنڈز کی فراہمی میں سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کا ثبوت قمر جاوید باجوہ کا خود اعترافی بیان ہے کہ انہوں نے سابقہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی امداد فراہم کرنے میں مدد کی تھی۔ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی ایک سے زیادہ موقع پر شکایت کی تھی کہ پاکستان کے ساتھ معاہدے کی شرائط طے کرتے وقت آئی ایم ایف کی طرف سے جتنا سخت رویہ 2019ء میں اختیار کیا گیا تھا‘ اتنا سخت اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔
پاکستان کے پالیسی منیجرز کو معلوم تھا کہ آئی ایم ایف کے اس سخت رویے کی وجہ کیا تھی‘ حالانکہ آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی میں سب سے بااختیار ملک امریکہ نے اس ضمن میں کئی بار اور لگی لپٹی کے بغیر بیانات دیے تھے۔ ان بیانات میں پاکستان سے صاف مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضوں کی صورت میں حاصل کردہ رقم سے پاکستان کی طرف سے سی پیک کے تحت حاصل کردہ قرضوں کی رقم واپس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دراصل امریکہ کو شروع سے ہی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور سی پیک پر شدید تحفظات تھے‘ بلکہ اس نے جاپان‘ بھار ت اور بحرالکاہل سے بحرِ ہند تک خطے میں موجود دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر چین کے بی آر آئی کے متبادل زمینی راستوں اور بحری شاہراہوں پر مشتمل منصوبہ تشکیل دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس منصوبے کا مقصد چین کے بی آر آئی اور سی پیک کے منصوبوں کو ناکام بنانا تھا‘ مگر اس میں اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی اور یہ منصوبہ ٹیک آف نہ کر سکا۔
2015ء میں پاکستان اور چین کے درمیان طے پا جانے والے سی پیک پر امریکہ کو شروع سے ہی تحفظات تھے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ اس کوریڈور کی تعمیر پر چین کی طرف سے 60بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری مختلف شرائط کے حامل قرضوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے لیے سوائے آئی ایم ایف کے قرضوں کے ان چینی قرضوں کو واپس کرنے کا اور کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں کے بوجھ کے پیشِ نظر امریکی حکام متعدد بار چین سے پاکستان کی مدد کو آنے کا مطالبہ کر چکے ہیں حالانکہ دو طرفہ بنیادوں پر چین پاکستان کو اپنی موجودہ مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے نقد ڈیپازٹ اور قرضوں کے رول اوور کی صورت میں بھاری امداد فراہم کر چکا ہے‘ مگر علاقائی اور عالمی سطح پر اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان چپقلش جاری ہے۔ امریکہ یوکرین کی جنگ پر روسی مداخلت اور حملے کی چین کی طرف سے مذمت نہ کرنے پر ناخوش ہے‘ مگر اس سے زیادہ تشویش اسے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر ہے۔ اس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر امریکہ سائوتھ چائنا سی اور آبنائے تائیوان میں اپنی جنگی اور بحری طاقت کا مظاہرہ کرکے چین کو اشتعال دلانے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ چین کے خلاف بعض تجارتی پابندیاں عائد کرکے بھی امریکہ نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس قدر کشیدہ کر لیا ہے کہ خود امریکہ کے اندر عالمی سیاست کے رجحانات پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو نہ روکا گیا اور امریکہ کی طرف سے اشتعال انگیز کارروائیاں جاری رہیں تو دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کی نوبت آ سکتی ہے جو ان دو ملکوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی شعبے میں بھی تعلقات اتنے قریبی اور گہرے ہو چکے ہیں کہ امریکہ کی نظر میں پاکستان اب جنوبی ایشیا اور بحر ہند سے بھی پار کے علاقوں میں چینی اثر و نفوذ کی توسیع کا وسیلہ بن چکا ہے۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان مکمل طور پر چین کی گود میں نہ چلا جائے‘ اس لیے وہ پاکستان کو چین سے دور کرنے کے لیے ایسے تمام حربوں کو استعمال کرے گا جو پاکستان کی معیشت کی کمزوری کی صورت میں اسے آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں‘ مثلاً یہ حقیقت کہ امریکہ پاکستان کی برآمدات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے‘ یورپی یونین‘ جاپان اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کے لیے امداد کی فراہمی پر امریکہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان اداروں میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ عالمی بینک کیساتھ آئی ایم ایف بھی 1945ء میں اپنے قیام سے اب تک امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول میں بطور انسٹرومنٹ استعمال ہوتا چلا آیا ہے۔ اس لیے وزیر خزانہ کا یہ الزام کہ آئی ایم ایف کے موجودہ رویے کے پیچھے جیو پولیٹکل عوامل کارفرما ہیں‘ کسی حد تک درست ہے‘ لیکن اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں‘ غلطیوں اور لغزشوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
اگر ہم آئی ایم ایف کے 20 سے زیادہ پروگراموں میں شامل ہونے کے بعد بھی اپنی معیشت کو درست نہیں کر سکے‘ اور اگر ہم اپنے قرضے ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے حاصل کرنے پر مجبور ہیں تو اس میں آئی ایم ایف یا امریکہ کا قصور نہیں‘ بلکہ غلط ترجیحات پر مبنی معاشی پالیسیوں کا تلخ پھل ہمیں اب تک کھانا پڑ رہا ہے۔ ان کے پیش نظر ان کے کردار کے سیاسی نوعیت کے ہونے کا الزام ناگزیر تھا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک کی معیشت اور کرنسیاں انتہائی تباہ کن حالات میں تھیں۔ اب حالات ماضی کی نسبت بدل چکے ہیں۔