اپنے نوسالہ دورِ اقتدار میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ حالیہ دورے سمیت‘ چھ مرتبہ امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس دوران ان کی تین امریکی صدور براک اوباما‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد ہر دفعہ مشترکہ اعلامیے بھی جاری ہوئے لیکن گزشتہ ماہ 23 جون کو صدر جوبائیڈن کے ساتھ بھارتی وزیراعظم کی ملاقات اور بات چیت کے بعد امریکہ اور بھارت نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا غیر متوقع طور پر اس میں پاکستان کیلئے سخت زبان استعمال کی گئی۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں کی جانب سے پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کرے کہ اس کے زیر کنٹرول کسی بھی علاقے سے سرحد پار دہشت گرد حملے نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ 2008ء میں ممبئی اور 2016ء میں پٹھانکوٹ فوجی اڈے پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی ان کارروائیوں کی تفتیش کرکے ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی ہے اور مجرموں کو سزائیں سنائی ہیں مگر مشترکہ اعلامیہ میں درج مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ بھی ان اقدامات سے مطمئن نہیں اس لیے امریکہ اور بھارت کے رہنمائوں کی طرف سے پاکستان پر ان تمام افراد اور تنظیموں مثلاً القاعدہ‘ داعش‘ لشکر طیبہ‘ جیش محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جنہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔
بھارتی اور امریکی رہنمائوں کی طرف سے ماضی میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس قسم کے مطالبات ایک عرصے سے کیے جا رہے ہیں‘ مگر بائیڈن اور مودی کی طرف سے حال ہی میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے‘ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ اور بھارت ایک پیج پر ہیں اور ان کی نظر میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرح پاکستان کی حکومتیں بھی اپنے ہاں دہشت گرد تنظیموں کو سرحد پار کارروائیوں سے روکنے میں ناکام رہی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ پاکستان کی سرزمین ایسی کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہو سکے‘ امریکہ اور بھارت نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور دہشت گردی اور پُرتشدد انتہا پسندی‘ خواہ وہ کسی بھی شکل اور حالت میں ہو‘ کی مکمل طور پر مذمت کرتے ہیں۔ کراس بارڈر دہشت گردی اور اس کیلئے پراکسی دہشت گردوں کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے دونوں ملکوں نے مشترکہ اعلامیہ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کیلئے ڈرون‘ انفارمیشن/ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر جوبائیڈن اور وزیراعظم مودی نے مل کر خطرات کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کیا ہے۔
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت نے فیٹف (FATF) پر زور دیا کہ دنیا میں فنانس ٹیررازم اور منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے اپنے نظام کو مزید مؤثر بنائے اور اس دھندے میں ملوث افراد یا تنظیموں کی نشاندہی کیلئے کوششوں کو تیز کرے۔ تبصرہ کاروں کے مطابق مشترکہ اعلامیہ میں امریکہ اور بھارت کے ٹیرر فنانس اور منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث افراد اور تنظیموں کی نشاندہی کیلئے اکٹھے مل کر کام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح انسدادِ دہشت گردی اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے شعبوں میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعاون بڑھایا جائے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسدادِ دہشت گردی اور ہوم لینڈ سکیورٹی کی آڑ میں امریکہ اور بھارت آئندہ جس پالیسی کا اعلان کریں گے یا فیصلہ لیں گے‘ اس پر بھارتی پالیسی کی گہری چھاپ ہو گی۔ پاکستان کیلئے اس میں ایک اہم پیغام ہے کہ آنے والے وقت میں اگر اس نے ان افراد اور تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش نہ کی جو بھارت اور امریکہ کی نظر میں بھارت کو نشانہ بنا رہی ہیں‘ تو فیٹف کی طرف سے دوبارہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومت کی سرتوڑ کوششوں سے کچھ ہی عرصہ پیشتر پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلا ہے۔ اگر اسے ٹیرر فنانس اور منی لانڈرنگ پر نظر رکھنے والے اسی عالمی ادارے کی طرف سے مزید اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو یہ ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہو گا۔
مشترکہ اعلامیہ میں جوبائیڈن نے انسدادِ دہشت گردی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں جس قدر بھارت کی طرف جھکائو کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس پر جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان کے ساتھ دیرینہ اور گہرے امریکی تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین حیران ہیں کیونکہ بعض امور پر اختلافات کے باوجود متعدد شعبوں میں نہ صرف پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں بلکہ دونوں طرف اس تعاون کو ایک دوسرے کے مفاد میں بہتر تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مزید مضبوط کرنے کی خواہش موجود ہے۔ اس کا واضح اظہار حال ہی میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان اور پاکستان میں امریکی سفیر نے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ہے۔ امریکہ اس وقت پاکستانی برآمدات کیلئے سب سے بڑی منڈی ہے۔ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات میں پاکستان کی مدد کرنے والے ممالک میں بھی امریکہ سب سے آگے ہے اور اپنے ہاں یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبہ کو تعلیم کے موقع فراہم کرنے کیلئے بھی امریکہ نے سکالر شپس کا ایک وسیع پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ اسی لیے امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون‘ جیسا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اس وقت تک پاکستان کیلئے تشویش کا باعث نہیں ہو سکتا جب تک واضح طور پر ان میں پاکستان کو ہدف نہ بنایا جائے۔ امریکہ نے ایک سے زیادہ دفعہ واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں امریکہ کے سٹریٹیجک پارٹنرز ہیں۔ اور دونوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو دوسرے کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امریکہ نے بھارت کو امریکہ کا گلوبل سٹریٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے مگر علاقائی سلامتی‘ ترقی اور خوشحالی کیلئے امریکہ پاکستان کے ساتھ تعاون کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس وقت جن شعبوں میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ان میں انسدادِ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی روک تھام‘ دہشت گردوں کے عالمی نیٹ ورک کو تباہ کرنا اور میری ٹائم سکیورٹی شامل ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا‘ دونوں ملکوں میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مفاد میں بھی ضروری ہے کہ اس تعاون کو نہ صرف جاری ر کھا جائے بلکہ بڑھایا جائے۔ مگر اس کیلئے عالمی اور علاقائی سطح پر حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والی جیوپولیٹکل تبدیلیوں کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے پالیسی ساز اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں۔ افغانستان سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد خطے میں ملکوں کی ایک نئی صف بندی وجود میں آ رہی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کے بعد پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی ایک لہرآئی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے تحت ریجنل کنیکٹیوٹی کے فروغ پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو ان تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی پرانی علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ اگر پاکستان اسی راہ کو اپنا لیتا ہے تو امریکہ یا کسی بھی ملک کے ساتھ بھارتی اتحاد یا تعاون پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔