"DRA" (space) message & send to 7575

تحریکِ عدم اعتماد کی کہانی‘ پیش کرنے والوں کی زبانی

تقریباً 15ماہ قبل یعنی اپریل 2022ء میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں بننے والی حکومت اگلے مہینے اپنی آئینی مدت ختم کرکے مسندِ اقتدار کو چھوڑ رہی ہے۔ اس بارے میں اب کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وزیراعظم شہباز شریف ایک سے زیادہ دفعہ اعلان کر چکے ہیں کہ 14اگست کو ان کی حکومت کی مدت ختم ہو جائے گی اور وہ اقتدار ایک نگران سیٹ اَپ کے حوالے کرکے گھر چلے جائیں گے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں بھی تحلیل ہو کر اقتدار نگران حکومتوں کے حوالے کر دیں گی۔ آئندہ انتخابات‘ جن کے انعقاد کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا‘ وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم ہونے والے اسی نگران سیٹ اَپ کے تحت ہوں گے‘ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت یا اپوزیشن‘ دونوں میں سے کوئی بھی آئندہ کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں بلکہ اپریل 2022ء میں سابق وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔
سابق وزیراعظم اورپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں اب احساس ہوا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کے پیچھے امریکہ کا نہیں قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کہہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کی پارٹی یعنی مسلم لیگ (ن) اسمبلیوں کو تحلیل کرکے فوری انتخابات کے حق میں تھی‘ مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے اصرار پر حکومت تشکیل دینا پڑی‘ جس میں پی ڈی ایم کی رکن سیاسی پارٹیوں کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی شامل تھی‘ جس نے ایک سال پیشتر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ رانا ثنااللہ کے بیان کو ان اطلاعات سے بھی تقویت ملتی ہے جن کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف ابتدا میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے‘ مگر بعد میں وہ اس شرط پر راضی ہوئے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد عام انتخابات کرائے جائیں گے‘ مگر بعض پارٹیوں کے زور دینے پر شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں ایک مخلوط حکومت قائم کرنا پڑی۔ بعد میں جب 25مئی کو چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا گیا تو نواز شریف نے بھی شہباز شریف حکومت کو جاری رکھنے کی حمایت کر دی تھی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عام انتخابات کی طرف جانے کے بجائے مخلوط حکومت کی تشکیل کا سب سے بڑا حامی کون تھا؟ اس کا انکشاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کیا ہے۔ ان کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت تشکیل دینے کے بجائے عام انتخابات کے حق میں تھی‘ لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی تجویز پر وفاق میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم کی گئی‘ جس کی سربراہی بطور وزیراعظم شہباز شریف کو دے دی گئی۔ مولانا اسے ایک سیاسی غلطی قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایک اہم انکشاف ہے کیونکہ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ مولانا نے 2018ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے پیشِ نظر قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کی تجویز پیش کی تھی مگر انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے بعد دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والی اپوزیشن کی دونوں پارٹیوں بالترتیب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا بلکہ جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر اسمبلیوں کو ان کی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا‘ بلکہ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے حکومت کو چارٹر آف اکانومی کی بنیاد پر تعاون کی پیشکش بھی کر دی تھی مگر چیئرمین تحریک انصاف نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) کی اول اور دوئم دونوں سطح کی قیادت کو نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور حامیوں کے خلاف سیاسی انتقام کا یہی رویہ تھا‘ جس کی وجہ سے (ن) لیگ کے ایک اہم رہنما سردار ایاز صادق کو کہنا پڑا کہ مولانا (فضل الرحمن) صاحب ٹھیک کہتے تھے‘ ہمیں 2018ء کے انتخابات کے نتائج قبول نہیں کرنا چاہئے تھے بلکہ دھاندلی کی بنیاد پرحکومت کے خلاف تحریک چلانی چاہیے تھی۔
مولانا صاحب کے بیان پر سابق صدر آصف علی زرداری کا ردِ عمل نہیں آیا‘ مگر یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین کی طرف سے مسلم لیگ (ن) پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف‘ خصوصاً پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دیا جاتا رہا‘ مگر (ن) لیگ جو پی ٹی آئی حکومت کے سیاسی انتقام کا سب سے بڑا نشانہ تھی‘ کا مؤقف یہ تھا کہ جب تک حکومت کو مقتدرہ کی حمایت حاصل ہے‘ اس کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہاں تک کہ پنجاب میں بھی جہاں مسلم لیگ (ن)حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ یہ صورتحال تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھی کیونکہ مقتدرہ کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) اور آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے اراکینِ صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی کے ساتھ تھے‘ اور مقتدرہ اور حکومت کے ایک پیج پر ہوتے ہوئے پنجاب میں بزدار حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا کوئی امکان نہ تھا۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز کا تعلق تھا کہ ملک گیر عوامی تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹا کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے‘ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا اس پر بھی یہ مؤقف تھا کہ احتجاجی تحریک کیلئے وقت موزوں نہیں تھا اور ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ کسی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک مقتدرہ کے اشارے کے بغیر نہ تو منظم کی جا سکتی ہے اور نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں میں اس سے اختلاف رکھنے والے بھی موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) میں شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ سعد رفیق اور کسی حد تک احسن اقبال کے نزدیک تحریک عدم اعتماد اور اس کی کامیابی کی صورت میں نئے انتخابات کا انعقاد بے سود تھا جب تک کہ اہم سٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے بعض بنیادی اور اہم امور پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا۔ ان امور میں سب سے نمایاں اداروں کا اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی پر راضی ہونا تھا۔ اس گرینڈ ڈائیلاگ اور اتفاقِ رائے کے بغیر اگر نئے انتخابات کروائے بھی گئے تو وہ نتائج کے اعتبار سے 2018ء کے انتخابات سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو برملا اظہار تو نہیں کرتے‘ مگر آصف زرداری کے بعض سیاسی اقدامات سے متفق نہیں‘ مثلاً 2018ء میں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں حکمران جماعت کا ساتھ دینے اور اس کے بعد سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں حکمران جماعت (پی ٹی آئی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ووٹ حاصل کرنے پر پی پی پی کے دو رہنمائوں مصطفی نواز کھوکھر (جو بعد میں پارٹی سے الگ ہو گئے) اور رضا ربانی نے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح پی ڈی ایم اور پی پی پی کی طرف سے خان صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کی کامیابی پر بیان دیتے ہوئے پی پی پی کے ایک اہم رہنما فرحت اللہ بابر نے اسے ایک غلطی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کو پیش کرنے سے قبل اپوزیشن کو مقتدرہ سے چند شرائط منوانی چاہئے تھیں کہ آئندہ وہ سیاست اور سیاسی پارٹیوں کے معاملات میں مداخلت سے باز رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں