پاکستان کے شمال مغربی علاقے خصوصاً سابقہ ''فاٹا‘‘ ایک عرصہ سے دہشتگردی کا شکار ہیں۔ اس دوران سرکاری تنصیبات‘ سکیورٹی فورسز کے قافلوں اور سیاسی رہنمائوں کو نشانہ بنایا گیا‘ لیکن اتوار 30جولائی کو باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں خود کش حملہ‘ جس میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 64سے زیادہ افراد‘ جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے‘ شہید ہوئے ہیں‘ اپنی نوعیت کا ایک الگ واقعہ ہے۔یہ حملہ ایسے موقع پر کیا گیا جب اگلے ہی روز چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فنگ پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کی 10سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ اس پر چند حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حملہ دراصل سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
اس سے قبل پاکستان کے کئی حصوں میں چینی انجینئرز اور ماہرین کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اس دھماکے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پاک چین دوستی خصوصاً دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور معیشت کے شعبوں میں تعاون کے سب سے اہم سمبل کو نشانہ بنانے والے نیٹ ورک کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اس میں جیسا کہ پہلے دعویٰ کیا جاتا تھا‘ صرف بلوچ علیحدگی پسند ہی شامل نہیں بلکہ دیگر دہشتگرد گروہ بھی شامل ہیں۔جمعیت علمائے اسلام کے ورکز کنونشن پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس بھیانک حملے کا ٹارگٹ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا جلسہ تھا حالانکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اپنا روحانی گُرو مانتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کو اعلانیہ ویلکم کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔ باجوڑ حملے کی تو داعش نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن اس سے قبل تقریباً تین مرتبہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ناکام حملوں کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ باجوڑ کا حملہ مذہبی‘ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اب تک انہوں نے طالبان اور ان سے وابستہ مختلف گروہوں کے بارے میں مصلحت پسندانہ نرم رویہ گوشہ رکھا ہے مگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے کے بجائے دہشتگردوں کی اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے میں حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
جولائی 2022ء میں مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں آٹھ رکنی وفد نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد کابل میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے رہنمائوں کو کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں اپنی کارروائیاں روکنے پر آمادہ کرنا تھا۔ وفاقی مدارس العربیہ کے سربراہ قاری حنیف جالندھری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحہ محمود بھی اس وفد میں شامل تھے۔ کابل روانہ ہونے سے قبل وزارتِ خارجہ کی طرف سے وفد کے ارکان کو بریفنگ بھی دی گئی تھی۔ اس وفد کے پروگرام میں افغان طالبان کے سینئر رہنمائوں اور کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈرز کے ساتھ ملاقات بھی شامل تھی۔ اس سے قبل جون میں 57ارکان پر مشتمل قبائلی زعما کے ایک وفد نے بھی کابل کا دورہ کیا تھا اور اس کا مقصد بھی افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں ٹی ٹی پی کو پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے سے روکنا تھا‘ مگر پاکستان کی یہ دونوں کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ ٹی ٹی پی نہ صرف اپنی شرائط پر بضد رہی بلکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف نومبر 2022ء سے ملک گیر حملوں کا اعلان کر دیا۔
کابل میں پاکستانی وفد کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وفد میں شامل چند شخصیات افغان طالبان کو ٹی ٹی پی پر دبائو ڈالنے سے زیادہ انہیں ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات کے قیام میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے عفریت کے بے قابو ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں اس نے سر اٹھایا تھا تو اسے کچلنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس جرم کے ارتکاب میں ہماری مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں اور اب یہ سب اپنی غفلت کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اب عوام سے اگلے پانچ برسوں کے لیے حکمرانی کا مینڈیٹ لینے کے لیے یعنی الیکشن 2023ء میں عوام کی تائید کے حصول کے لیے آزادانہ اور بلا خوف و خطر انتخابی مہم کا چلانا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ پاکستان 10برس قبل اس خونریز تجربے سے گزر چکا ہے جب کالعدم ٹی ٹی پی نے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں میں خود کش حملوں کی دھمکی دے کر ان سیاسی پارٹیوں کے لیے پنجاب‘ کے پی اور کراچی میں انتخابی مہم چلانے کو ناممکن بنا دیا تھا۔اُس وقت تمام سیاسی پارٹیاں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانوں کی شکل میں ان بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتیں تو آج ژوب اور باجوڑ جیسے سانحوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
2013ء کے انتخابات کے موقع پر بعض سیاسی پارٹیوں نے موقع پرستی اور خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشتگردوں کے اپنے مدِمقابل سیاسی پارٹیوں کو نشانہ بنانے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ امید ہے کہ اب ان سیاسی پارٹیوں نے سبق سیکھ لیا ہو گا اور باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) پر حملے کو اپنے اوپر حملہ تصور کریں گی۔ پارلیمنٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین نے اپنی تقاریر میں جو کچھ کہا ہے اس کا یہی پیغام ہے کہ اب بھی وقت ہے خطرے کا پورا اور درست احساس کریں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مصلحت کیش رویہ اختیار کرنے کے بجائے واضح اور دو ٹوک رویہ اختیار کریں اور پھر اس پر غیر متزلزل ارادے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ پاکستان اور افغانستان میں سرگرم دہشتگرد اور انتہا پسند تنظیموں کو یقین ہے کہ ان دونوں ملکوں میں ان کے حامی موجود ہیں اور وہ ان کی سہولت کاری کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ریاست اور اس کے اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے‘ خواہ انہوں نے کوئی بھی لبادہ اوڑھا ہو‘ دہشتگردوں کو آئیسولیٹ کریں۔ دہشتگردی کی بیخ کنی اسی طرح کی جا سکتی ہے۔باجوڑ کے سانحہ کے بعد اب ہر طرف سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شفافیت پیدا کریں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا دشمن کون ہے اور دوست کون۔ اس وقت دہشتگردی کے خلاف ہماری جنگ ری ایکٹو ہے‘ اسے پرو ایکٹو ہونا چاہیے۔ حکومت نے اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات نہ کرنے کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن باجوڑ واقعہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا مؤقف ابھی واضح نہیں ہے۔ عوام میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ دہشتگردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں یقین نہیں کہ حکومت اپنی پالیسی پر مستقل طور پر کاربند رہے گی۔ دہشتگرد اس متذبذب صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرے گروہوں کے ساتھ مل کر سکیورٹی فورسز کے علاوہ ایسی سیاسی پارٹیوں کو بھی ٹارگٹ کر رہے ہیں جو ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی حیثیت سے مشہور ہیں۔