پاکستان کو اس وقت درپیش چیلنجز میں سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سب سے زیادہ تشویشناک چیلنج ہے۔ پہلے یہ واقعات ملک کے ایک حصے خصوصاً شمالی اور سابقہ قبائلی علاقوں تک محدود تھے لیکن اب ان کا دائرہ بلوچستان اور سندھ تک پھیل چکا ہے۔ پہلے ان حملوں کے پیچھے القاعدہ یا کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو ہوا کرتے تھے مگر حال ہی میں جو خونریز حملے ہوئے ہیں‘ ان کے پیچھے داعش‘ ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی کا بھی ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں اتوار 13اگست کو گوادر میں سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر حملہ اور اس سے قبل 30جولائی کو باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں ایک خود کش حملہ ہے جس میں 64کے قریب افرادشہید ہوگئے تھے۔ ان حملوں کے علاوہ بلوچستان میں ژوب کی چھائونی میں سکیورٹی فورسز کی تنصیبات پر حملہ بھی ایک ایسا واقعہ ہے جو متعلقہ حکام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کیونکہ اس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث پائے گئے تھے۔
دہشت گردی کے چیلنج اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی کا اگر ایک جامع جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہماری حکومتوں نے اسے سمجھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکمت عملی کی تشکیل میں فاش غلطیاں کی ہیں۔پرویز مشرف کے زمانے میں القاعدہ اور طالبان کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا جاتا تھا‘ اس لیے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرف دور میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے پر توجہ مرکوز تھی۔ طالبان کے بارے میں پرویز مشرف کی ابتدائی رائے یہ تھی کہ یہ ہماری فرسٹ لائن آف ڈیفنس ہیں‘ مگر بعد میں انہی طالبان کی طرف سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ارتکاب کا سلسلہ شروع ہوا تو گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاح سامنے آئی‘ حالانکہ مقامی آبادی چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ یہ تخصیص سطحی ہے اور طالبان ایک ہی نظریے اور لائحہ عمل کے علمبردار ہیں۔
اس کے بعد جب ٹی ٹی پی کی چھتری تلے دہشت گردوں کے مختلف گروپوں کی طرف سے ملک کے طول و عرض میں دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے خلافِ قانون قرار دیا گیا اور قوم کو بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک دوسرے سے جدا ہیں حالانکہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے رہنما مرحوم ملا عمر کو اپنا روحانی گرو مانتی ہے اور 2014ء کے بعد جب پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے ٹی ٹی پی کے خلاف قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کیا تو اس کے جنگجوؤں نے نہ صرف بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی بلکہ افغان طالبان کیساتھ مل کر سابقہ افغان حکومتوں‘ جنہیں پاکستان سمیت عالمی برادری کے تمام ممالک اور اقوام متحدہ افغانستان کی جائز اور قانونی حکومتیں سمجھتے تھے اور امریکہ کی فوجوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو گئے۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کے متعلقہ حکام کو اس کی خبر نہ ہو لیکن آگے چل کر پاکستان کی سلامتی کے لیے اس کے کیا مضمرات ہوں گے‘ اس کے بارے میں کوئی سوچ بچار نہیں کی گئی۔ باقی دنیا کی طرح پاکستانی قوم کو بھی اس وقت پتا چلا کہ کالعدم ٹی ٹی پی جس کے ہاتھ ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے‘ افغان طالبان کے شانہ بشانہ افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کر رہی ہے۔
جب اگست 2021ء میں کابل پر قبضہ کر کے طالبان نے اپنی حکومت قائم کی اور اس کے ایک اہم رہنما نے اعلان کیا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ میں کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل رہے ہیں اور اب طالبان کی حکومت کے سامنے یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ ان جنگجوئوں کا کیا کیا جائے۔ دہشت گردی کے بارے میں ایک مفروضہ یہ تھا کہ اس کا سبب افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی ہے اور اگر افغانستان سے یہ غیر ملکی یعنی امریکہ اور نیٹو کی افواج نکل جائیں تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی امن قائم ہو جائے گا ‘ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ تمام مفروضے یکے بعد دیگرے غلط ثابت ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی تعاون ہے بلکہ وہ ایک دوسرے میں ضم ہونے کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔ پاکستان کے احتجاج کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں اور قیادت کو افغانستان میں نہ صرف محفوظ پناہ گاہوں کے استعمال بلکہ نقل و حرکت کی کھلی چھٹی اس بات کا ثبوت ہے کہ نظریاتی اور سیاسی لائحہ عمل کے لحاظ سے افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
پاکستان کے ایک سابق سینئر سکیورٹی اہلکار نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے اخراج اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں امن قائم ہو گیا ہے اور دہشت گردی ختم ہو گئی ہے حالانکہ 15 اگست 2021ء کو کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے مثلاً 2021ء میں افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد 110تھی جو اس سے اگلے سال یعنی 2022ء میں 213ہو گئی۔ رواں سال یعنی 2023ء کے صرف پہلے چھ ماہ میں دہشت گردی کے 317واقعات ہو چکے ہیں اور ان کا دائرہ ملک کے دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ان حملوں میں کسی ایک تنظیم کا نہیں بلکہ ایک سے زیادہ دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو آئندہ آنے والے دنوں میں صرف ایک دہشت گرد تنظیم کی جانب سے نہیں بلکہ ایک سے زیادہ تنظیموں سے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن کا نشانہ نہ صرف ہماری سکیورٹی فورسز اور معاشی اثاثے ہو سکتے ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق‘ قانون اور آئین کی حکمرانی اور جمہوری نظام میں یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا اصل مقصد پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام کی جگہ اپنے مخصوص نظریے پر مبنی نظام کو قائم کرنا ہے۔ پاکستان میں خود کش یا سکیورٹی تنصیبات پر حملے چھوٹے چھوٹے یا عام مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے نہیں کیے جا رہے‘ ان کے پیچھے دہشت گردوں کے طویل المیعاد منصوبے ہیں جن کا مقصد سکیورٹی فورسز اور معاشی اثاثوں پر حملوں کے ذریعے ملک کی سکیورٹی کو مفلوج اور معیشت کو تباہ کرنا ہو سکتا ہے تاکہ یہاں ان تنظیموں کی مرضی کا کوئی نظام قائم ہو سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا چیلنج ایک سٹریٹجک چیلنج ہے اور ہمیں اس کا مقابلہ ایک سٹریٹیجک چیلنج سمجھ کر ہی کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے ایک طویل المیعاد جامع حکمت عملی تیار کرنا ہو گی جس کی تشکیل میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اِن پٹ شامل ہو۔