نئی دہلی میں منعقد ہونے والی جی 20 کی سربراہی کانفرنس کے بارے میں سب سے اہم خبر کانفرنس کا انعقاد نہیں تھی بلکہ کانفرنس سے ہٹ کر سائیڈ لائن پر بھارت‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکہ اور یورپی یونین کے ایک اجلاس میں بھارت اور یورپ کے درمیان مشرقِ وسطیٰ سے گزرتے ہوئے ایک اقتصادی راہداری (اکنامک کوریڈور) کے قیام کا اعلان تھا۔ یہ نیا کوریڈور بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ممبئی کے مغرب میں مندرہ کی نئی بندرگاہ سے شروع ہو گا اور دبئی سے عمان اور سعودی عرب سے گزرتا ہوا اُردن کے راستے اسرائیل میں داخل ہو گا اور بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع اس کی بندرگاہ حیفہ (Haifa) پر پہنچ کر بحیرۂ روم کے راستے اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی اور مغربی یورپ کے دیگر ملکوں تک جائے گا۔
اس کوریڈور کی خاصیت یہ ہے کہ اسے نہر سویز کے متوازی اور خطے کے دیگر اہم ممالک مثلاً ایران‘ عراق اور ترکیہ کو شامل کیے بغیر تعمیر کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو برس سے اس منصوبے کی تعمیر پر صلاح مشورہ جاری تھا اور اس مقصد کیلئے بھارت‘ سعودی عرب‘ اسرائیل اور امریکہ کے ماہرین کے درمیان متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ اس پروجیکٹ میں حصہ لینے والے ممالک کی طرف سے جاری کردہ بیانات کے مطابق یہ کوریڈور نہ صرف معاشی بلکہ جیو پولیٹکل اہمیت کا بھی حامل ہے۔ معاشی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ نہر سویز کے متوازی یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی ساز و سامان کی ترسیل کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ اس وقت یورپ اور ایشیا کے درمیان دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے اور اس کا 80فیصد سے زائد حصہ نہر سویز سے گزرتا ہے‘ مگر نہر سویز میں تجارت کے اتنے بڑے حجم‘ جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے‘ کو ہینڈل کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس کے نتیجے میں یورپ سے روانہ ہونیوالے کنٹینر نہر سویز کے راستے ایشیا میں اپنی منزلِ مقصود پر دیر سے پہنچتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مشرقِ وسطیٰ سے گزرتے ہوئے یورپ اور بھارت کے درمیان کوریڈور سے سمندر اور خشکی کے راستے کنٹینر جلد بھارت پہنچیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ سے نہر سویز کے راستے ممبئی پہنچنے میں کنٹینرز کو 28 دن لگتے ہیں‘ مگر مجوزہ کوریڈور کے راستے یہ وقت کم ہو کر 16 دن رہ جائے گا۔ اس طرح وقت میں 40فیصد کمی ہو گی جو کہ معاشی لحاظ سے ایک اہم بچت ہے۔
جیو پولیٹکل نقطۂ نظر سے یہ کوریڈور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی اینڈ آر آئی) کے مقابلے میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ بی آر آئی کی تعمیر کا اعلان چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013ء میں اپنے دورۂ قازقستان کے موقع پر کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ‘ ایران‘ افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان موجود قدیم شاہراہِ ریشم کو بحال کرنا ہے۔ اس کے تحت چین نے قازقستان‘ وسطی ایشیا‘ بحیرہ قزوین کے آس پاس کے علاقوں‘ ایران اور پاکستان سے گزرتے ہوئے متعدد اکنامک کوریڈورز کی تعمیر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے ساتھ صدر شی جن پنگ نے اسی سال انڈونیشیا کے دورہ کے موقع پر میری ٹائم سلک روڈ کے نام سے جاپان سے مشرقِ وسطیٰ تک ایک سمندری تجارتی شاہراہ تعمیر کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان کر دیا تھا۔امریکہ کی طرح بھارت بھی چین کے ان منصوبوں کے خلاف ہے کیونکہ ان کے خیال میں چین ان منصوبوں کے تحت سڑکوں‘ ریلوے لائنوں‘ بندرگاہوں اور شاہراہوں کی تعمیر سے جنوب مشرقی ایشیا‘ بحرِ ہند‘ مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس سے بھی آگے افریقہ تک اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ مغربی طاقتوں‘ خصوصاً امریکہ کو یہ خوف لاحق ہے کہ چین کے ان منصوبوں کی کامیابی سے ان علاقوں میں برسوں سے موجود اس کے سیاسی‘ معاشی اور دفاعی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ایسے ہی خدشات بھارت کو لاحق ہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنی آبادی‘ رقبے‘ معیشت اور عسکری طاقت کے بل بوتے پر بحر ہند اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔امریکہ اور بھارت دونوں کیلئے مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کی خطوں کے ممالک کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی اور معاشی تعلقات اور اس کے نتیجے میں اس کے سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ میں اضافہ سخت باعثِ تشویش ہے‘ اور دونوں اس کے آگے بند باندھنے میں مصروف ہیں۔ 'انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور‘ کی تعمیر ان کوششوں کا حصہ ہے۔ اس کوریڈور کو اولڈ سپائس روٹ (Old Spice Route) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے مراد 1498ء میں پرتگیزی ملاح واسکوڈے گاما کی براعظم افریقہ کے گرد چکر لگا کر ہندوستان کے مغربی ساحل پر کالی کٹ کے مقام پر کامیاب آمد سے پہلے قدیم شاہراہِ ریشم کے ذریعے جنوبی ہندوستان اور بحرِ ہند کے باقی خطوں میں پیدا ہونے والے گرم مصالحہ جات کی یورپ کی منڈیوں میں فروخت ہے۔ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور کے بارے میں دو دعوے کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ اس کی بنیاد قدیم شاہراہِ ریشم پر رکھی گئی ہے اور آج کے دور میں اس سے وہی کام لیا جائے گا جو صدیوں پیشتر چین اور یورپ کو براستہ مشرقِ وسطیٰ ملانے والی تجارتی شاہراہ سے لیا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ کوریڈور چین کے بی اینڈ آر آئی کا توڑ ثابت ہو گا۔
ان دونوں دعووں کا اگر ماضی اور حال کے حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو غیر حقیقت پسندانہ ثابت ہوں گے۔ جو لوگ قدیم شاہراہِ ریشم کی تاریخ اور علم و فن‘ تہذیب و ثقافت‘ صنعت‘ تجارت‘ فلسفہ اور سائنسی علوم کے علاوہ مختلف ثقافت کے مالک اور مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اس کی کنٹری بیوشن سے واقف ہیں‘ انہیں اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ اس کا قدیم شاہراہِ ریشم سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ شاہراہِ ریشم کسی ایک سڑک کا نام نہیں تھا بلکہ چین سے شروع ہونیوالی اس عظیم تجارتی گزرگاہ کی کئی شاخیں تھیں۔ ان میں ایک شاخ کی جگہ آج کل قراقرم ہائی وے تعمیر کی گئی ہے تاہم اس کا سب سے بڑا حصہ ایران سے گزر کر بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ترکی سے مصر اور اس سے آگے مغربی افریقہ کے ممالک کی بندر گاہوں پر ختم ہوتا تھا‘ جہاں سے تجارتی سامان چھوٹے سمندری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے بحیرۂ روم کے مغربی ساحل پر واقع یونان‘ اٹلی‘ فرانس اور سپین کی بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ ہندوستان باقی کئی اور خطوں کی طرح اس کا ایک کیچمنٹ ایریا تھا۔ چین‘ وسطی ایشیا‘ ایران اور ترکی کو الگ کر کے خشکی کے راستے یورپ اور ایشیا کے درمیان کوئی اکنامک کوریڈور کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ کہا گیا ہے کہ اس کوریڈور سے چین کے بی آر آئی سے مقابلہ کیا جائے گا حالانکہ بی آر آئی میں شامل ملکوں کی تعداد 155 ہو چکی ہے اور انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور کی بنیاد رکھنے والے ممالک کی تعداد صرف آٹھ ہے۔ 2021ء میں جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس میں بھی چین کے بی آر آئی کے مقابلے میں ایک کوریڈور پی جی آئی آئی (پارٹنرشپ فار گلوبل انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ) کے نام سے لانچ کیا گیا تھا مگر اس میں دیگر ممالک نے دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ اب آئی ایم ای سی کا اعلان کرکے اسے پی جی آئی آئی کا حصہ بنا دیا گیا ہے مگر اس کا اعلان ہوتے ہی بعض مقامی ملکوں کی طرف سے اعتراضات اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے‘ مثلاً ترکی کے صدر طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے بغیر اس خطے میں کوئی کوریڈور قائم نہیں ہو سکتا۔ آئی ایم ای سی میں اسرائیل کی شمولیت سے فلسطینی حلقوں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کوریڈور کے ذریعے امریکہ فلسطینی مسئلہ حل کیے بغیر سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر عرب ممالک کے درمیان مصالحت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس طرح آئی ایم ای سی اپنے آغاز سے پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے۔