گزشتہ قومی اسمبلی کو صدر مملکت عارف علوی نے سابقہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پر 9اگست کو تحلیل کر دیا تھا۔ چونکہ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت (پانچ سال) پورے کرنے سے تین دن پہلے تحلیل کر دیا گیا تھا اس لیے آئین کی رُو سے اگلی اسمبلی کے انتخابات 90 روز کے اندر ہونا لازمی ہیں۔ عام حالات میں اس کے بارے میں کسی شک و شبہ یا بدگمانی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی میں بھی اسمبلیاں ٹوٹتی‘ تحلیل ہوتی رہیں مگر نئے اراکین آئینی مدت کے اندر منتخب ہوتے رہے ہیں‘ لیکن سابقہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہوئے تقریباً ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے اور ابھی تک معلوم نہیں کہ اس کے نئے انتخابات کب ہوں گے۔ 21 ستمبر کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی حلقہ بندیوں کے عمل کو تیز کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ اسے 30 نومبر تک مکمل کر لیا جائے گااور اس کے بعد نئی اسمبلیوں کے انتخابات میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جائے گی اور ووٹنگ سے پہلے انتخابی عمل کے ضروری مراحل عبور کرنے کے بعد‘جس کے لیے زیادہ سے زیادہ 54 دن کا عرصہ درکار ہوگا‘ ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اگرچہ ایک آدھ سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے آئندہ انتخابات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ختم ہونے میں مدد ملے گی لیکن پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے بدستور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انتخابات 90دن کے اندر کروائے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے ان مطالبات کے جواب میں کہا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کے لیے تیار ہے بشرطیکہ یہ پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوں۔ لیکن 2023ء کی مردم شماری کے اعلان اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی طرف سے اس کی منظوری اور نوٹیفکیشن کے بعد آئندہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر منعقد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کی اجازت ضروری ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت نئے انتخابات کے لیے پرانی کی بجائے نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے۔ پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر نئے انتخابات نہیں ہو سکتے لیکن پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر نئے انتخابات بعض سیاسی پارٹیوں کے لیے کسی قیمت پر قابل قبول نہیں کیونکہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل سے ان کے انتخابی حلقوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ اس صورت میں قومی اسمبلی کی مزید نشستوں کی توقع رکھتی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں میں ایم کیو ایم سب سے آگے ہے‘ جس کا دعویٰ ہے کہ 2018 ء کے انتخابات میں اُس کے امیدواروں کو دھاندلی سے ہرایا گیا‘ جس کی وجہ سے وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی کئی نشستیں حاصل نہ کر سکی۔ الیکشن کمیشن اگر الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کرانے پر بضد ہے تو اسے اہم سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گااور اگر وہ نئی حلقہ بندیوں کے کام کو ایک طرف رکھ کر پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کے حق میں فیصلہ کرتا ہے تو ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہو گا۔ دونوں صورتوں میں آئندہ ہونے والے انتخابات متنازع ہوسکتے ہیں اور وہ لوگ جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ نئے انتخابات سے پاکستان کو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے درپیش سیاسی بحران ختم ہو جائے گا‘ مایوسی سے دوچار ہوں گے کیونکہ پاکستان کو اس وقت جس بحران کا سامنا ہے اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ تاہم الیکشن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ جمہوری عمل میں الیکشن میں کامیابی کسی بھی حکومت کو آئینی‘ قانونی اور اخلاقی جواز (Legitimacy) فراہم کرتی ہے۔ یہ جواز سیاسی استحکام‘ حکومت کی عملداری‘ اخلاقی برتری اور سب سے بڑھ کر عوام اور حکومت کے تعاون کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہی بات آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل ارسطو نے آئین اور قانون کے دفاع میں کہی تھی کہ ایک فرد کی مرضی اور خواہش پر مبنی فیصلے کے بجائے آئینی طور پر حکومت اس لیے قابلِ ترجیح ہے کہ اس میں انفرادی کے بجائے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں عوام کی رضاکارانہ مرضی شامل ہوتی ہے اور اسے قانونی اور جائز سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں ایک صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن سے اس لیے احتراز کیا گیا کہ اس سے چند لوگوں کے انفرادی مفادات کے خلاف نتائج آنے کا ڈر تھا۔ اس کی نمایاں مثال ضیاء الحق کا اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا وعدہ تھا‘ جسے پورا کرنے میں آٹھ‘ نو برس لگ گئے اور وہ بھی غیر جماعتی انتخابات کی شکل میں۔ 1956ء کے آئین کو اس کی تشکیل کے صرف دو برس بعد محض اس لیے منسوخ کیا گیا اور ملک میں مارشل لا ء لگا دیا گیا کہ 1959ء میں ہونے والے انتخابات میں نئی سیاسی قوتوں کی جیت صاف نظر آرہی تھی۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کولڈ وار الائنس کے پیش نظر ان سیاسی قوتوں کی جیت ناقابلِ قبول تھی۔ اس لیے آئین کو ہی منسوخ کر دیا گیا۔
ایوب خان نے 1962 کے آئین کے تحت بالواسطہ (Indirect) انتخابات کو اس لیے شامل کر رکھا تھا کہ اسے معلوم تھا کہ براہ راست اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات میں عوام اس کی مخالف سیاسی قوتوں کو ووٹ دیں گے۔ 1970ء کے انتخابات میں یحییٰ خان نے محض اس لیے مداخلت نہیں کی تھی کہ بہت سی رپورٹس کے مطابق انہیں ان کے مشیروں‘ جن میں میجر جنرل شیر علی اور جنرل عمر پیش پیش تھے‘ نے یقین دلایا تھا کہ انتخابات میں کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور جنرل یحییٰ خان اسکندر مرزا کی طرح سیاسی پارٹیوں کو اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کر سکیں گے۔
اس وقت بھی صورتحال ایسی ہی ہے کہ کچھ حلقے مثبت نتائج کے انتظار میں جمہوریت کے سب سے اہم اور بنیادی اصول حقِ رائے دہی کے استعمال کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہتے ہیں تاہم آج کے حالات ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ سوشل میڈیا نے سیاسی تبدیلیوں کے عمل کو تیز کرنے میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ یہی محرکات محدود زمان و مکان کے باعث اتنے بااثر نہیں تھے مگر اب ان کی آئوٹ ریچ گلوبل ہو چکی ہے‘ جس کی وجہ سے نتائج بھی بہت جلد اور مؤثر انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ہر طرف سے اس دلیل کے ساتھ 90 دن کے اندر انتخابات پر زور دیا جا رہا ہے کہ اس سے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی فضا ختم ہو جائے گی‘ اور ایک جائز‘ قانونی اور نمائندہ حکومت قائم ہو گی جسے نہ صرف ملک کے عوام بلکہ بین الاقوامی برادری کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔ اس طرح ملک کی عزت و وقار کے ساتھ معیشت بھی بحال ہو گی‘ لیکن اس وقت سیاسی پارٹیوں میں عدم اعتماد اور محاذ آرائی کے ساتھ گہری تقسیم (Polarization) کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اس کی موجودگی میں ہونے والے الیکشن کے بارے میں کیسے ضمانت دی جا سکتی ہے کہ وہ اچانک امن‘ آشتی‘ برداشت اور تعاون کی فضا قائم کر دیں گے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیاں مل بیٹھیں۔Truth and reconciliation commission تشکیل دیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے کی طرف بڑھیں‘ مگر اس عمل میں اداروں کی شرکت بھی ضروری ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھیں کہ اس سمت میں کیا پیش رفت ہوسکتی ہے۔ سیاستدان گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے اس مسئلے کو طے کر یں‘ اس کے بعد ہی انتخابات کے نتیجے میں ملک سیاسی استحکام سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔