تقریباً چار سال لندن میں گزارنے کے بعد وطن واپس لوٹنے سے پہلے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ آج سے چھ سال قبل انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے رچائی جانے والی سازش میں شامل افراد کا احتساب کیا جائے‘ جب تک یہ احتساب نہیں ہو گا ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ان کے اس بیان سے ان کی پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ بڑے میاں صاحب ایک دفعہ پھر بنا بنایا کھیل بگاڑنے والے ہیں۔ بالخصوص میاں شہباز شریف‘ جنہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے 16ماہ کے دوران مقتدرہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا ہے‘ کو ڈر ہے کہ میاں صاحب شاید پھر سے پرویز مشرف کی تاریخ دہرانے والے ہیں‘ جن کا احتساب کرتے کرتے انہیں خود اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شنید ہے کہ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ نواز شریف اپنے اس بیانیے سے دستبردار ہو جائیں۔
اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کا حالیہ دورۂ لندن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا ہے وہ قابلِ فہم ہے اور اس پر ان کی پارٹی کی طرف سے جو ردِ عمل آیا ہے وہ بھی غیر متوقع یا حیران کن نہیں ہے‘ اس لیے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ ایک ساتھ سیاسی سفر طے کرنے کے بعد میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے اہم رہنمائوں درمیان نظریاتی ہم آہنگی میں کمی آ چکی ہے۔ تین دفعہ وزیراعظم رہنے اور پاور پالیٹکس کے کھیل کو قریب سے دیکھنے کے بعد میاں نواز شریف کے خیالات میں تبدیلی آ چکی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ارتقائی تبدیلی ہے جس کی سمت متعین کرنے میں میاں صاحب کے اپنے مزاج کے علاوہ ان تجربات کا بھی بڑا کردار ہے جن سے انہیں 1990ء کی دہائی کے بعد گزرنا پڑا۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اس کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب یہ ہاتھ میں آتی ہے اور آپ اسے استعمال کرتے ہیں۔ عوامل بہرحال کچھ بھی ہوں‘ میاں نواز شریف اپنے 40سالہ سیاسی کیریئر کے بعد جن نتائج پر پہنچے ہیں اب وہ ان کا اظہار کر رہے ہیں‘ لیکن چند ایک رہنماؤں کو چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے باقی رہنمائوں کی سوچ اور عمل میں کوئی ارتقائی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنے قائد کے ہمراہ ایک ہی سیاسی عمل سے گزرنے کے باوجود (ن) لیگ کے 90 فیصد اراکین اور رہنما جن نتائج پر پہنچے ہیں‘ وہ میاں نواز شریف سے مختلف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ (ن) لیگ کے سپورٹرز میں اب وہی لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں مقتدر حلقوں کی حمایت سے کیا تھا۔
جہاں تک نوجوان طبقے‘ بالخصوص متوسط اور اس سے اوپر کے طبقے کے نوجوانوں کا تعلق ہے‘ ان کے لیے نہ (ن) لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی میں کوئی کشش ہے۔ نظریاتی بنیادوں پر اگر سیاسی پارٹیوں کی درجہ بندی کی جائے تو (ن) لیگ کو لائٹ آف دی سینٹر کہا جا سکتا ہے اور یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ (ن) لیگ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ابھرتے ہوئے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس لیے وہ تمام سیاسی عناصر جو پاکستان کو سیکولر کے بجائے ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے‘ (ن) لیگ میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ مقتدرہ بھی یہی چاہتی تھی اسی لیے بعض مذہبی جماعتوں اور گروہوں کو (ن) لیگ کی حمایت کرنے کی ترغیب دی گئی۔ 2018ء سے پہلے تمام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ (ن) لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ اس کا ثبوت ہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف کی طرح میاں نواز شریف بھی مقتدر حلقوں کی حمایت سے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے تھے‘ اگرچہ اس کو سہل بنانے میں پیپلز پارٹی کی حکومت (1988-91ء) کی چند غلطیوں مثلاً بلوچستان کی اسمبلی کی تحلیل پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی خاموشی کا بھی بڑا دخل تھا‘ لیکن مقتدر حلقے چاہتے تھے کہ میاں نواز شریف ان کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے حکومت کریں۔ شنید ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور صدر اسحاق خان کے جھگڑے کی ایک وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب اقتدار بلا شرکت غیرے استعمال کرنا چاہتے تھے‘ مگر کہا جاتا ہے کہ 1993ء میں صدر اسحاق خان کے ساتھ ان کے تنازع کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ صدر اسحاق خان کے خلاف ایک متحدہ موقف اختیار کرنے کے لیے خفیہ رابطے میں تھے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ میاں نواز شریف اور مقتدرہ کے تعلقات 2016ء میں ڈان لیکس سے خراب ہوئے تھے۔ دونوں فریقوں کے درمیان فاصلوں میں اضافے کی ابتدا اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی جو بالآخر 2017ء میں اقامہ پر منتج ہوئی۔
میاں نواز شریف کے حامی حالات میں اس تبدیلی پر خوش نہیں تھے‘ خصوصاً پنجاب میں وہ حضرات جنہوں نے نواز شریف کی دریا دلی سے بہت فائدہ اٹھایا تھا‘ سخت پریشان تھے کیونکہ مقتدر حلقوں کے ساتھ لڑائی مول لے کر نواز شریف انہیں پہلے کی طرح نواز نہیں سکتے تھے‘ لیکن پارٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑی رہی‘ اس امید پر کہ شاید تحریک انصاف کے چیئرمین کو منتخب کرنے والوں کو جلد احساس ہو جائے کہ انہوں نے غلط انتخاب کیا ہے اور اس کے بعد دوبارہ (ن) لیگ منظورِ نظر ٹھہرے۔ یہ موقع 2022ء میں پیدا ہوا جس سے شہباز شریف نے فائدہ اٹھانے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی کیونکہ تب تک تحریک انصاف کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے‘ انتخابات کے دوران اور انتخابات کے بعد بھی سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے چیئرمین تحریک انصاف کے لیے راہ ہموار کی گئی تھی۔ ملک کے عوام ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مبصرین کی ٹیمیں بھی اس کی گواہی دیتی رہیں۔ اسی وجہ سے مولانا فضل الرحمن نے 25جولائی 2018ء کو منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ مگر آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے اپنے تحفظات کے باوجود اسمبلی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور پھر مولانا کو بھی راضی کر لیا کہ نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ اہم قومی مسائل کے حل میں تعاون کی بھی پیشکش کی گئی جسے چیئرمین تحریک انصاف نے این آر او کے حصول کی کوشش قرار دے کر رَد کر دیا۔ اصل میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پر مشتمل اپوزیشن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ تب تک ایک پیج کا ڈنکا بج چکا تھا۔ اس لیے تحریک انصاف کے پاس معمولی اکثریت ہونے کے باوجود اس کی حکومت کو گرانا ناممکن تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف کو بھی زعم تھا کہ وہ مقتدرہ کی واحد آپشن ہیں‘ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ (ن) لیگ کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کی ایک مخلوط حکومت نے مرکز میں اقتدار سنبھال لیا‘ شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے جنہوں نے نہ صرف ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ (ن) لیگ کے مقتدرہ کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات کی داغ بیل بھی ڈالی۔ شہباز شریف اور ان کے ہم خیال لیگی رہنما اب اسی بات پر پریشان ہیں کہ میاں نواز شریف کے نئے بیانیے سے یا اپنا پرانا بیانیہ ہی دہرانے سے ان کی 16 ماہ کی محنت رائیگاں جائے گی اور انہیں ایک دفعہ پھر 2017ء جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔