ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے قومی کرکٹ ٹیم ان دنوں بھارت میں موجود ہے۔ اس دوران پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف کے ایک بیان پر بہت لے دے ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کھلاڑی جب دشمن ملک میں یا کسی بھی جگہ کھیلنے جائیں تو ان کا مورال بلند ہونا چاہیے ۔ اپنے اس بیان پر رد عمل کے بعد پی سی بی چیئرمین نے پہلے تو کہا کہ ان کا یہ بیان سیاسی اور سفارتی اصطلاح میں تھا لیکن جب کرکٹ کے شائقین اور عام لوگ مطمئن نظر نہ آئے تو ان کا یہ وضاحتی بیان آیا کہ پاکستان اور بھارت روایتی حریف ہیں‘جب بھی پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں کرکٹ کے میدان میں قدم رکھتی ہیں تو وہ روایتی حریفوں کے طور پر مدمقابل ہوتی ہیں۔ اس بیان میں انہوں نے حیدر آباد (دکن)میں پاکستانی کھلاڑیوں کے استقبال کو شاندار قرار دیتے ہوئے بھارتی میزبانوں کو مبارکباد بھی پیش کی اور کہا کہ اس کی بنیاد کرکٹ ہے جو کہ دونوں ملکوں میں مقبول ترین کھیل ہے اور جب کبھی دونوں ملکوں کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں دونوں ملکوں کے عوام جوش کا اظہار کرتے ہیں۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا مگر اس کی بنیادی وجہ کرکٹ ہے۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات جتنے کشیدہ ہیں ماضی میں کبھی ایسے نہیں تھے۔ گزشتہ چار برس سے زیادہ عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تجارتی بلکہ آمد و رفت کے شعبوں میں بھی تعلقات منقطع ہیں‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کی وجہ بھارت کی موجودہ حکومت کا اگست 2019ء کا کشمیر میں یک طرفہ غیر قانونی اقدام ہے‘ اور اس کے خلاف کشمیری عوام کی طرف سے جو مزاحمت کی جا رہی ہے‘ اسے کچلنے کے لیے بھارت کی سکیورٹی فورسز کشمیری عوام پر جو ظلم ڈھا رہی ہیں اس کی وجہ سے پاکستان میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے‘ مگر پی سی بی چیئرمین کو اس موقع پر جبکہ ہماری کرکٹ ٹیم بھارت میں موجودہے‘ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا‘ اس سے پاکستانی ٹیم کی سکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے کیونکہ بھارت میں ایسے انتہا پسند عناصر موجود ہیں جو اس بیان کی آڑ میں عوامی جذبات ابھار کر پاکستانی ٹیم کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے پاک بھارت کرکٹ سیریز کو سبوتاژ کرنے کے لیے پچ کو اکھاڑ دیا تھا۔ بھارت میں جو لوگ پاکستان مخالف ہیں ‘ وہ پاک بھارت کرکٹ میچز کے بھی سخت مخالف ہیں اور وہ کئی بار اس ذہنیت کا عملی طور پر مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اختلافات‘ اعتراضات‘ کشیدگی اور مخالفت اپنی جگہ لیکن دو ہمسایہ ممالک کے عوام کی بھاری تعداد کشیدہ تعلقات کے باوجود ایک دوسرے کے درمیان دوستانہ تعلقات کے مخالف نہیں۔ دوستانہ تعلقات کیلئے ماحول پیدا کرنے کیلئے جدید ریاستیں ڈپلومیسی کے جو مختلف ٹولز استعمال کرتی ہیں ان میں سپورٹس سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔
ماضی قریب میں چین اور امریکہ کے درمیان سرد مہری کو گرم جوشی میں تبدیل کرنے میں سپورٹس‘ جسے ''پنگ پانگ ڈپلومیسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے‘ کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان بھی مختلف مواقع پر کرکٹ ڈپلومیسی کا استعمال کرتا رہا ہے۔1987ء کے ابتدائی ایام کی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت میں محاذ آرائی عروج پر تھی۔ بھارتی افواج یہ تاثر دے رہی تھیں کہ اپنے وزیراعظم راجیو گاندھی کے حکم کا انتظار کر رہی ہیں کہ پاکستان پر حملہ کر دیا جائے۔ پھر ایک دم منظر بدلتا ہے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ ہندوستانی دفتر خارجہ کو اطلاع دیتا ہے کہ صدرِ پاکستان ضیاء الحق پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان جے پور میں کھیلا جانے والا میچ دیکھنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ بھارتی اخبار ''انڈیا ٹوڈے‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی صدرِپاکستان کا استقبال کرنے دہلی ایئرپورٹ پر آئے جہاں سے وہ براستہ چنئی جے پور جانے والے تھے۔ مضمون نگار راجیو گاندھی کا مشیر تھا اور اس سفر میں ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ اس کے بقول صدرِ پاکستان نے چنئی روانہ ہونے سے قبل راجیو گاندھی کا ہاتھ پکڑا اور مخاطب ہوئے کہ راجیو‘ تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو‘ کرو‘ مگر یاد رکھنا اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی‘ راجیوگاندھی اور ضیاء الحق کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ ایک روایتی جنگ نہیں ہو گی کیونکہ اس کے بعد ممکنہ طور پر صرف پاکستان کے مسلمان ختم ہوں گے کیونکہ دنیا میں اور بھی مسلم ممالک ہیں جبکہ پوری دنیا میںہندوؤں کا ایک ہی ملک ہندوستان ہے‘ اس کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ اگلے دن ضیاء الحق اور راجیو گاندھی عشائیے پر مل رہے تھے اور ان کے درمیان معاہدہ طے پا رہا تھا کہ افواج کو سرحدوں سے کیسے واپس بلایا جائے؟ تاریخ میں اس سفارتی حربے کو ''کرکٹ ڈپلو میسی‘‘کا نام دیا گیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بنیاد پر متنازع مسائل حل کرنے کے لیے پُرامن اور کشیدگی سے پاک ماحول کو پیدا کرنے کے لیے دو طرفہ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اس میں تجارت‘ سکیورٹی‘ عوامی روابط اور ثقافت کے علاوہ کھیل کا شعبہ بھی شامل تھا۔ 2004ء کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنی بھی کرکٹ سیریز ہوئیں‘ انہیں دونوں ملکوں کی قیادت نے باہمی مفاہمت اور امن کے لیے سود مند قرار دیا بلکہ ہر سیریز کے موقع پر پاکستان میں بھارتی اور بھارت میں پاکستانی ٹیم کا بڑھ چڑھ کر استقبال کیا گیا‘ مگر یہ صرف کرکٹ کی خاطر نہیں ہوتا رہا بلکہ دونوں ملکوں کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے محبت‘ چاہت اور خیر سگالی کے جذبات کا جو ذخیرہ ہے یہ اس کا ایک اظہار ہے۔
''دشمن ملک‘‘ کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلی جاتی بلکہ جنگ کی جاتی ہے کیونکہ ڈپلومیسی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے آپ کسی ملک کو صرف اس وقت دشمن کہہ سکتے ہیں جب اس کے ساتھ آپ کا ملک جنگ کی حالت میں ہو۔ پاکستان کے آئین کی رو سے صرف صدرِ پاکستان کو کسی ملک کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے اسے ایک دشمن ملک قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ دونوں ممالک میں ایسے افراد نہیں ہیں جو ایک دوسرے کو دشمن ملک قرار دیتے ہیں‘ مگر یہ عوام‘ ریاست یا حکومت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ بھارت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کو بھارت کا مستقل دشمن قرار دے کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بعض حضرات ایسے ہیں جو بھارت کو ازلی دشمن سمجھتے ہیں مگر ایسے عناصر کی تعداد کم ہے۔ وہ ان نعروں کو جہاں چاہیں‘ جب چاہیں بلند کر سکتے ہیں مگر انہیں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی دونوں میں سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی ان نعروں کی روشنی میں مرتب کی جاتی ہے۔
''دشمن ملک‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ملکوں کے درمیان تعلقات کی ایک خصوصی کیفیت (حالتِ جنگ) کی موجودگی میں استعمال کی جاتی ہے‘ چونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت حالتِ جنگ میں نہیں ہیں‘ اسلئے دونوں میں سے کسی بھی ملک کا کوئی بھی ذمہ دار عہدے دار ایک دوسرے کو دشمن ملک قرار نہیں دے سکتا۔ بھارت سمیت سبھی ممالک کیساتھ تعلقات میں پاکستان ایک اہم اصول کی بنیاد پر بنی پالیسی پر کاربند ہے اور وہ یہ کہ ہم ہر ملک کیساتھ دوستانہ اور پُرامن تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں سافٹ پاور کہا جاتا ہے۔ ان میں سپورٹس کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور بھارت 1952-53ء سے ایک دوسرے کے ہاں کرکٹ میچ کھیلتے چلے آرہے ہیں اور ان تمام مواقع پر دونوں ملکوں کے عوام نے دلچسپی اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے‘ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے عوام پُرامن کشیدگی سے پاک اور دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ اگر ایسا فی الواقع نہیں ہے تو اس میں عوام کے بجائے حکومتوں‘ بالخصوص بھارتی حکومت کی ناکام اور تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں کا قصور ہے۔