سات اکتوبر کی حماس کی کارروائی کے جواب میں اسرائیل کی غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر بارود کی بارش جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں اب تک 3500کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ان میں 69فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل کے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں تیزی آ رہی ہے۔ اس پر دنیا بھر میں رائے ظاہر کی جا رہی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کے بیانات سے بھی اس خدشے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اب تک جتنے فلسطینی باشندے غزہ میں اسرائیلی بم باری اور گولہ باری سے شہید ہو چکے ہیں ان میں خواتین اور بچوں کی بھاری اکثریت سے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیان میں مشرقِ وسطیٰ کے جس نئے نقشے کی دھمکی دی گئی ہے یہ اس کی ابتدائی جھلک ہے جس کے تحت فلسطین میں رہنے والے 50لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ہمسایہ عرب ممالک اُردن اور مصر میں دھکیل دیا جائے گا یا ایک باقاعدہ اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کر دیا جائے گا تاکہ پوری ارضِ فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کی جا سکے۔ اسرائیل کے انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کے حامل یہودی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں‘ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن خود اسرائیل کے غیریقینی اور مخدوش مستقبل کے بارے میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی کا عمل پہلے اسرائیل سے شروع ہو گا کیونکہ ماہرین‘ جن میں اسرائیلی یونیورسٹیوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی شامل ہیں‘ کی رائے میں اسرائیل میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں فلسطینی علاقوں بالخصوص دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیاں تعمیر کر کے باہر سے آباد کار بسانے کی پالیسی ہے۔
اسرائیل میں اس وقت یہودی بستیوں کے بارے میں پالیسی اہم زیر بحث موضوع ہے۔ رائے عامہ کا ایک حصہ‘ جو اگرچہ اس وقت اقلیت میں ہے مگر اکیڈیمیا اور میڈیا کے ممتاز دانشوروں اور چند سیاسی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے‘ اس رائے کا حامل ہے کہ اسرائیل نے یہودی بستیوں پر غیر لچک دار رویہ اختیار کرکے نہ صرف امریکہ اور یورپ میں اپنے اتحادیوں کی ناراضگی مول لی ہے بلکہ خود اسرائیل کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ ان یہودی بستیوں کی بڑی تعداد دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے اس حصے میں تعمیر کی گئی ہے جہاں یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی آبادی 86فیصد زیادہ ہے۔ دوسرے یہ یہودی بستیاں خود کفیل نہیں ہیں بلکہ سروسز اور دیگر ضروریات کے لیے اسرائیلی علاقوں پر انحصار کرتی ہیں۔ تیسرے ان یہودی بستیوں کا تحفظ اسرائیل پر بہت بڑا بوجھ ہے کیونکہ یہ بستیاں چاروں طرف سے فلسطینی آبادی سے گھری ہوئی ہیں۔ 1967ء میں جب اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت وہاں کوئی یہودی بستی نہیں تھی مگر قبضہ کرنے کے بعد دس سال کے اندر اندر یہاں 32یہودی بستیاں تعمیر کر دی گئی تاہم 1977ء سے 1984ء کے عرصہ کے دوران‘ جب اسرائیل پر لیکوڈ (Likud) پارٹی کی حکومت رہی‘ نہ صرف یہودی بستیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ انہیں مغربی کنارے کے اس حصے میں بسایا گیا جہاں فلسطینی عرب بھاری اکثریت میں رہتے تھے۔
یہودی بستیوں کے بارے میں اسرائیل کی موجودہ پالیسی‘ جس کو عالمی برادری غیرقانونی قرار دے کر متعدد بار مذمت کر چکی ہے‘ کی بنیاد اسی دور میں رکھی گئی تھی۔ لیکوڈ پارٹی کا لیڈر اور اسرائیل کا سابق جنرل ایرل شیرون اس پالیسی کا سرغنہ تھا۔ اس کا مقصد مغربی کنارے کو بالآخر اسرائیل کا حصہ بنا کر فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانا تھا۔ اس وقت مغربی کنارے کی تقریباً 30لاکھ آبادی میں یہودی آباد کاروں کی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے۔ یہ آباد کار 279یہودی بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان میں 100سے زیادہ بستیاں ایسی ہیں جو اسرائیلی قوانین کے تحت بھی غیرقانونی ہیں مگر انتہا پسند یہودیوں کی مدد سے انہیں نہ صرف قانونی قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ ان کے باسیوں کو اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کا تحفظ بھی حاصل ہے۔ ان یہودی بستیوں کو چونکہ فلسطینیوں کی زمینوں‘ باغوں اور گھروں پر قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے‘ اس لیے یہودی آباد کاروں اور مقامی فلسطینی آبادی کے درمیان کشیدگی اور تصادم کی فضا ابتدا ہی سے قائم چلی آ رہی ہے‘ مگر اسرائیل کی موجودہ مخلوط حکومت‘ جس کا سربراہ اگرچہ وزیراعظم نیتن یاہو ہے مگر وہ حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل اراکینِ کابینہ کے زیر اثرہے‘کے دور میں اس کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ عناصر فلسطین میں ''دو ریاستی‘‘ فارمولے کے سخت خلاف ہیں اور مغربی کنارے کو ضم کرکے پورے فلسطین میں ایک ہی یعنی یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودی آباد کاروں نے اسرائیلی قوم کے ساتھ مل کر مقامی فلسطینی آبادی کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ جب (دسمبر 2022ء) سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے‘ دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی آباد کاروں اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں درجنوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
75سال گزر جانے کے بعد بھی اسرائیل کا سکیورٹی اور اکانومی کے شعبوں میں امریکہ پر بھاری انحصار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کروڑ کے قریب اسرائیل کی آبادی جس زمین پر آباد ہے‘ وہ رقبے کے لحاظ سے بہت کم اور وسائل کے اعتبار سے بھی ناکافی ہے۔ اسرائیل کی معیشت کا تمام تر دارومدار امریکہ کی براہِ راست امداد اور یورپ اور امریکہ میں رہنے والے یہودیوں کے ڈونیشنز پر ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی برادری کی حمایت کھو رہا ہے۔ غزہ پر حملے کی جس طرح دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اب دنیا میں یک و تنہا ہونے جا رہا ہے۔ اسرائیل کے سیاسی حلقوں میں اس پر کافی پریشانی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے لیے اس میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ یہودی ریاست میں جمہوریت کے بجائے فاشسٹ اور نسل پرستی کی سوچ کے حامل عناصر تقویت پکڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی سیاست میں لبرل اور ڈیموکریٹک سوچ کی جگہ کٹر مذہب پرستی‘ انتہا پسندی‘ عدم برداشت‘ تشدد اور فاشزم جڑ پکڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت اور اس کے حامی عناصر کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے منصوبے کو ختم کر کے ہی قائم رہ سکتا ہے مگر خود اسرائیل میں یہ سوچ فروغ پا رہی ہے کہ اس پالیسی سے اسرائیل آپ اپنی تباہی کی بنیادیں کھود رہا ہے۔