فلسطین میں عربوں اور صہیونیوں کے درمیان جنگ کی کہانی ایک سو برس سے بھی زیادہ پرانی ہے مگر سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کا پانچ ہزار کے قریب راکٹوں سے حملہ اور پھر اسرائیل کے اندر گھس کر 225سے زائد اسرائیلیوں کو جنگی قیدی بنانا‘ جن میں درجنوں اسرائیلی فوجی بھی شامل ہیں‘ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا کیونکہ حماس‘ جسے اسرائیل 2007ء سے غزہ پر مسلسل حملے کرکے ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا‘ سے اسرائیل کو اس قسم کے اچانک حملے کی توقع نہ تھی۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد‘ جو خود کو دنیا کی بہترین ایجنسی مانتی ہے‘ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے جس کا وسائل‘ تجربے اور ٹیکنالوجی میں دنیا کی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی مقابلہ نہیں کر سکتی‘ بھی اس سے بے خبر رہی۔ یعنی نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فلسطینی مجاہدین اس قسم کی کارروائی کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اسی طرح حماس کی کارروائی کے خلاف ردِ عمل میں اسرائیل نے جس وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے‘ دنیا اس پر بھی حیران ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے چھوٹے سے علاقے میں رہنے والی 20لاکھ آبادی کو لگاتار فضائی‘ زمینی اور بحری حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اس میں جانی نقصان سب سے زیادہ بچوں اور عورتوں کا ہوا ہے۔ دنیا اسے بہیمانہ قتل اور نسل کشی سے تعبیر کر رہی ہے حتیٰ کہ اسرائیل کے اندر سے بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور وزیراعظم نیتن یاہو کو ہٹا کر نئی اسرائیلی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن گزشتہ 75برس سے جاری رہنے والی عربوں اور صہیونیوں کے درمیان آزادی کی اس جنگ پر بین الاقوامی برادری نے جو ردِ عمل ظاہر کیا ہے‘ وہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا بلکہ یہ مسئلہ فلسطین اور مشرقِ وسطیٰ میں توازنِ طاقت کیلئے دور رس مضمرات کا حامل بھی ہے۔
اس سے قبل ہر تصادم اور ہر جنگ کے موقع پر اسرائیل خود کو دنیا کے سامنے مظلوم بنا کر پیش کرتا تھا اور اس کے لیے یورپ کی مسیحی حکومتوں خصوصاً ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام اور امتیازی سلوک کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں مگر اسرائیل نے اس بات کا کبھی ذکر نہیں کیا کہ جب یورپ کی مسیحی حکومتوں کے دور میں یہودیوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں تھیں تو سلطنتِ عثمانیہ اور شمالی افریقہ کی عرب ریاستیں یورپ سے بھاگ کر آنے والے یہودیوں کے لیے واحد محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ 1948ء میں اپنے قیام کے بعد سے آج تک اسرائیل نے اپنے ہمسایہ عرب ممالک مصر‘ اُردن اور شام کے خلاف مسلسل جارحیت کا ارتکاب اور ان کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی سرحدوں کو توسیع دی ہے۔ 1967ء کی جنگ میں مصر کے علاقے غزہ اور صحرائے سینا‘ اُردن کے (دریائے اُردن) کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس اور شام میں سطح مرتفع گولان پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا‘ اور یہ قبضہ اب تک برقرار ہے حالانکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس قبضے کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دے کر ان علاقوں کو واپس لوٹانے کا مطالبہ کر چکے ہیں مگر ان علاقوں پر نہ صرف اب تک اسرائیل کا قبضہ برقرار ہے بلکہ انہیں اسرائیل کا مستقل حصہ بنانے کے لیے‘ اسرائیل کی طرف سے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں یہودی آباد کاروں کے لیے بستیاں تعمیر کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔ بیت المقدس کا وہ حصہ جو اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے تحت فلسطینی ریاست میں شامل قرار پایا تھا اور دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ جہاں فلسطینی باشندوں کی تعداد 30لاکھ کے قریب ہے‘ میں اسرائیل نے امریکی امداد سے متعدد یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں‘ جہاں سات لاکھ یہودی رہائش پذیر ہیں۔ ان یہودی بستیوں کی تعمیر کا سوائے اس کے کوئی اور مقصد نہیں کہ ان علاقوں کو مستقل طور پر اسرائیل میں ضم کر دیا جائے۔ دریائے اُردن کے مغربی کنارے سے بحیرۂ روم تک ان علاقوں میں‘ جو اسرائیلی ریاست کا حصہ کہلاتے ہیں‘ رہنے والے یہودیوں اور فلسطینیوں کی تعداد برابر ہے۔ ایک حصہ یعنی یہودی تمام حقوق‘ رعایات‘ آسائشوں اور سہولتوں کے حق دار ہیں جبکہ برابر کی تعداد میں آبادی کا دوسرا حصہ یعنی فلسطینی ہر قسم کے حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں شہریت کا حق حاصل نہیں ہے۔ وہ اسرائیلی انتخابات میں نہ ووٹ ڈال سکتے ہیں‘ نہ حصہ لے سکتے ہیں۔ ان کی ان کو جائیداد کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہودی بستیوں میں رہنے والے لوگوں کو ہر قسم کی آسائشیں میسر ہیں مثلاً پینے کا صاف پانی‘ بجلی‘ گیس اور سیوریج لیکن جن علاقوں میں فلسطینی آباد ہیں وہاں یہ سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فلسطینی طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ مگر سات اکتوبر کے بعد ایک بالکل نیا اور بدلا ہوا منظر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دنیا کے تمام براعظموں کے بڑے بڑے شہروں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر آ کر احتجاجی مظاہرے کیے ہیں جن میں غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں آٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں‘ جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے‘ کے قتلِ عام کی مذمت کی جا رہی ہے اور اسرائیل کی موجودہ حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس قسم کے مظاہرے لندن‘ پیرس‘ برلن‘ میڈرڈ‘ ایتھنز‘ سڈنی اور نیویارک میں ہوئے ہیں اور ان میں شریک ہونے والوں میں صرف فلسطینی یا ان کے حامی ہی نہیں بلکہ یہودی بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک نے آنکھیں بند کرکے اسرائیل کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے‘ مگر ان ملکوں کے عوام نے اپنی حکومتوں کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کا اعلان کیا ہے۔
مسئلہ فلسطین پر مغربی دنیا میں حکومتوں اور عوام کے درمیان لاتعلقی کا یہ مظاہرہ گزشتہ 75برسوں میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے ورنہ اب تک امریکہ اور یورپ میں اسرائیل کا ہی بیانیہ چلتا آیا ہے لیکن حیران کن حد تک اب مغربی رائے عامہ خصوصاً نئی نسل تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی نہ صرف دیکھنے بلکہ اس پر غور کرنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت سڑکوں پر مارچ کرنے والے ہاتھوں میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی کتبے اٹھانے والے لاکھوں لوگ ہی نہیں ہیں بلکہ نوم چومسکی‘ گیڈین لیوی اور رشید خالدی جیسے امریکی اور اسرائیلی دانشوروں‘ صحافیوں اور پروفیسروں کی اس موضوع پر تقریر سننے والے حاضرین کا ہجوم بھی ہے جو ہر ایسے فقرے پر‘ جس میں سپیکر صہیونی ریاست کی منافقت اور فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں‘ داد دیتے ہیں۔ ان دانشوروں کی رائے میں یہ حیران کن تبدیلی عرب اسرائیل تنازع کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا کیونکہ یہ امید کی واحد کرن ہے جو انصاف‘ برابری اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر عرب اسرائیل تنازع کے ایک ایسے حل کی نوید کی حیثیت رکھتی ہے جہاں فلسطینیوں کو نہ صرف ایک قوم کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا بلکہ ان کے ساتھ سماجی اور معاشی شعبوں میں امتیازی سلوک بھی ختم کیا جائے گا۔