کوئٹہ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد بلوچستان کی 30کے قریب اہم سیاسی شخصیات پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان شخصیات میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی و صوبائی وزیر‘ سابق سینیٹرز‘ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور سابق اراکینِ قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔ اکتوبر میں لندن سے پاکستان واپس آنے کے بعد میاں نواز شریف نے پنجاب سے باہر‘ ملک کے دیگر حصوں میں اپنے سیاسی حلیف تلاش کرنے کی جن کوششوں کا آغاز کیا تھا‘ بلوچستان سے ان اہم سیاسی شخصیات کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت ان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی تنظیم ایم کیو ایم (پاکستان) سے آئندہ انتخابات میں اکٹھے حصہ لینے کا وعدہ حاصل کر چکی ہے۔ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے مد مقابل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) میں شامل سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (فنکشنل) سے بھی مسلم لیگ (ن) نے رابطہ قائم کیا تھا اور اس مقصد کے لیے پارٹی کے دو سینئر رہنمائوں ایاز صادق اور سعد رفیق نے سندھ کا دورہ بھی کیا تھا۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے ان پارٹیوں کے ساتھ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اتحاد میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے مگر غالب امکان یہ ہے کہ ایم کیو ایم سمیت سندھ کی باقی تمام پارٹیاں سندھ سے قومی اور صوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دیں گی۔ بلوچستان میں بھی محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کسی انتخابی اتحاد میں شمولیت میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا البتہ دونوں پارٹیاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اعلان کر چکی ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی تو برملا اعلان کر چکے ہیں کہ پہلے کی طرح ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کا اس وقت تک ساتھ دے گی جب تک کہ میاں نواز شریف آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کرتے رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمن تو محمود خان اچکزئی سے بھی زیادہ میاں نواز شریف کے ثابت قدم حامی ہیں‘ ماضی میں انہوں نے مقتدرہ کے دباؤ کے باوجود میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ بلوچستان سے ان اہم شخصیات کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے دورۂ بلوچستان اور اس دورے کے دوران 30کے قریب اہم شخصیات کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کو باقی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان پارٹیوں میں پیپلز پارٹی سب سے آگے ہے۔ اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو پریس کانفرنس اور جلسۂ عام سے تقریر میں اسے ڈیل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو کوئٹہ کے بجائے لاہور پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے جہاں ان کے مطابق حالات مسلم لیگ (ن) کے حق میں نہیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایم کیو ایم (پاکستان) اور پیر آف پگاڑا کی قیادت میں قائم ہونے والے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے رابطہ کرنے پر پیپلز پارٹی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اسے قومی سیاست میں ایک صحت مندانہ رجحان قرار دے کر اس کا خیر مقدم کیا تھا مگر بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پر پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سے بھی زیادہ سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زرداری صاحب کو معلوم ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کا اتحاد پیپلز پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ اس کی وجہ سے سندھ قوم پرستی کے جذبات کے حامل ووٹرز پیپلز پارٹی کی حمایت میں اور بھی پختہ ہو جائیں گے کیونکہ جیسا کہ عام تاثر پایا جاتا ہے‘ یہ دونوں پارٹیاں یعنی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو حاصل ہونے والی صوبائی خود مختاری خصوصاً قومی آمدنی سے حاصل ہونے والے فنڈز کی تقسیم میں صوبوں کے حصے پر نظر ثانی کی حامی ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے درمیان اس مفاہمت کو پہلے ہی 1973ء کے آئین کے خلاف ایک سازش قرار دے چکی ہے تاہم بلوچستان میں جو کچھ ہوا ہے اس نے پیپلز پارٹی پر ایک صدمے کی کیفیت طاری کر دی ہے کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جن رہنمائوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی‘ وہ اسے چھوڑ کر (ن) لیگ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ابھی چند دن پیشتر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اپنے ساتھیوں سمیت کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہے تھے مگر کوئٹہ میں میاں نواز شریف کی آمد پر جن 30کے قریب سرکردہ سیاسی شخصیات نے (ن) لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ہے ان میں جام کمال خان کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 11دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے ان کے علاوہ دیگر قد آور شخصیات کی (ن) لیگ میں شمولیت ایک دھچکے کی حیثیت اس لیے رکھتی ہے کیونکہ زرداری صاحب نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے لیے جس مشن کا اعلان کیا تھا‘ اس میں بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی کی حمایت نہایت اہم ہے۔ آج سے 35برس قبل یہ بلوچستان ہی تھا جس نے پنجاب کے میاں محمد نواز شریف کو ایک صوبائی سطح سے اٹھا کر قومی لیڈر اور آخر کار ملک کا وزیراعظم بنا دیا تھا۔1988 ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی‘ اس لیے مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر میاں محمد نواز شریف وزارتِ اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور مرکز کے درمیان کشیدگی بلکہ محاذ آرائی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جو آخر کار اگست 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں آئین کے آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت کی خاتمے پر منتج ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی میں میاں محمد نواز شریف کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی مگر ایک واقعہ جس نے میاں محمد نواز شریف کو یکدم صوبائی سطح سے اٹھا کر قومی لیڈر بنا دیا‘ وہ دسمبر 1988ء میں گورنر بلوچستان جنرل ریٹائرڈ موسیٰ خان کی طرف سے صوبائی حکومت کی تحلیل تھی۔ بلوچستان اسمبلی تحلیل ہونے پر بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کی پارٹیوں نے سخت احتجاج کیا تھا اور مرکزی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا مگر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا‘ تاہم ان کی مذمت بھی نہ کی۔ نواب اکبر بگٹی‘ جو تحلیل ہونے والی اسمبلی میں وزیراعلیٰ بننے والے تھے‘ نے وفاقی حکومت کے طرزِ عمل پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ ہم تو پیپلز پارٹی کو اپنا قدرتی حلیف سمجھتے تھے۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے برعکس پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان اسمبلی کی تحلیل کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کی بحالی کا مطالبہ کر دیا اور اس طرح بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کا دل جیت لیا۔ اس سے ان کی وزارتِ عظمیٰ کی راہ ہموار ہوئی۔ زرداری صاحب کا بھی خیال تھا کہ بلوچستان کے الیکٹ ایبلز کی مدد سے وہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنا سکیں گے لیکن میاں نواز شریف کے کامیاب دورۂ کوئٹہ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔