غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ فلسطین میں کون سے فارمولے کے تحت مستقل اور دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر مشتمل اسرائیل کے متوازی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا جو تجربہ کیا گیا تھا (جسے دو ریاستوں کا فارمولا بھی کہا جاتا ہے) وہ عملاً ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اسرائیل نے شمالی غزہ میں تباہ کن بمباری اور گولہ باری کے ذریعے غزہ کی 80فیصد آبادی کو اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں یا جنوبی غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ فلسطین میں عرب باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد (30 لاکھ) دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ جسے عام طور پر ''مغربی کنارے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ میں آباد ہے۔ وہاں بھی فلسطینی اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کا مغربی کنارے سے رابطہ ختم کرکے اسے فلسطینیوں کے لیے ایک نو گو ایریا قرار دے دیا ہے۔ فلسطینی ریاست جسے ''فلسطینی اتھارٹی‘‘ کہا جاتا ہے‘ اور جس کے صدر محمود عباس ہیں‘ کی غزہ میں عملداری ختم ہو چکی ہے اور مغربی کنارے میں بھی وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے حملوں سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
اسرائیل کے خلاف سات اکتوبر کی حماس کی کارروائی کے جواب میں اسرائیل کے اقدام کے بارے میں یہودی ریاست کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کے خلاف اعلانِ جنگ پر بے دریغ عمل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا سیاسی نقشہ قائم کرنا چاہتا ہے‘ اس میں فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ حالانکہ عالمی برادری جس میں عرب اور مسلمان ملکوں سمیت امریکہ بھی شامل ہے ''دو ریاستی فارمولے‘‘ پر اصرار کر رہے ہیں‘ لیکن اس فارمولے پر اسرائیل کے دیرینہ مؤقف اور سات اکتوبر کے بعد کی اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اس فارمولے کی بنیاد پر فلسطین میں مستقل امن کے قیام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ دو ریاستی فارمولا‘ جو دراصل نومبر 1947ء میں فلسطین کو دو‘ عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر مبنی تھا‘ انتہا پسند یہودیوں کو قبول نہ تھا‘ اور وہ بحیرۂ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948ء میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انہیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان‘ شام‘ اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ فلسطینی‘ جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے‘ اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔
1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے کے علاوہ غزہ اور بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے عرب اسرائیل تنازع میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہو گیا تھا‘ یعنی مغربی کنارے‘ غزہ اور شام کی سطح مرتفع گولان پر قبضے کا۔ مشہور دانشور نوم چومسکی کے مطابق 1967ء کی جنگ میں عربوں کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل کے ہاتھ اپنے عرب ہمسایہ ممالک اور فلسطینیوں کے ساتھ مستقل امن اور سلامتی کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنے کا ایک تاریخی موقع آیا تھا کیونکہ ان علاقوں کو واپس کرکے اسرائیل نہ صرف عرب بلکہ مسلم ممالک کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات اور سیکورٹی حاصل کر سکتا تھا۔ جنوری 1967ء میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے چار عرب ممالک یعنی مصر‘ اُردن‘ شام اور لبنان نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد‘ خود مختار اور با اختیار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو‘ جس کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر لیں گے بلکہ اس کے ساتھ نارمل تعلقات قائم کرکے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کی سرحدوں کی ضمانت بھی دیں گے‘ لیکن اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ اس طرح اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرقِ وسطیٰ میں مستقل امن کے قیام کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا تھا۔
پروفیسر چومسکی کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امن کے فقدان اور آئے دن کے تصادم کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ 1967ء کے بعد عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر امن پیشکش کو امریکہ کی شہ پر اسرائیل نے مسترد کیا‘ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل کو بھی ''دو ریاستی‘‘ فارمولے پر راضی ہونا پڑا تھا۔ اس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات اور اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کی حامی سیاسی پارٹیوں کی بجائے لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل لیبر پارٹی کا برسر اقتدار آنا تھا‘ تاہم 2009ء میں جب نیتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی ایک مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اوسلو معاہدے (1993ء) کے تحت ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ ان میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست میں تبدیل کرنا اور دوسرے بیت المقدس کے ان علاقوں میں‘ جہاں فلسطینی آبادی کی اکثریت ہے‘ یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کرنا ہے۔
سات اکتوبرکے بعد بھی امریکہ‘ یورپ اور اقوامِ متحدہ کے علاوہ بین الاقوامی برادری دو ریاستی فارمولے کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کی حمایت کرتی ہے‘ لیکن بیشتر مبصرین کی رائے میں ''دو ریاستی فارمولا‘‘ اب قابلِ عمل نہیں رہا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے چھ لاکھ کے قریب یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ انہیں ان کی بستیوں سے نکال کر ایک فلسطینی ریاست قائم کرنا ناممکن ہے۔ اس کے بجائے فلسطینیوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ جہاں فلسطینیوں کو برابر کے شہری‘ سیاسی‘ قانونی اور معاشی حقوق میسر ہوں۔ اس کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس وقت بحیرۂ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن کے کنارے تک تمام علاقے میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی برابر تعداد آباد ہے‘ اور ان کے درمیان مستقل امن اور مفاہمت صرف ایک ریاست کی صورت میں ہی ممکن ہے‘ مگر اسرائیل اسے بھی مسترد کر چکا ہے۔ اس کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد حل تمام فلسطینیوں کو اُردن میں آباد کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز دراصل فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے ان کے وطن سے محروم کرنے کے مترادف ہے اور عرب اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔